Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تہران کی یونیورسٹی میں طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں، متعدد گرفتار

یونیورسٹی کی ویڈیوز پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے (فوٹو: فیس بک، شریف یونیورسٹی)
ایران کے دارالحکومت تہران کی ایک یونیورسٹی میں طلبہ کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایران کے سرکاری میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تہران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں طلبہ پر سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس اور پیلٹ گنز کا استعمال کیا۔
رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں نے یونیورسٹی میں پرتشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق طلبہ ’عورت، زندگی اور آزادی‘ اور ’بے عزتی سے موت اچھی‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بعدازاں ملک کے وزیر سائنس یونیورسٹی پہنچے اورصورت حال کو سنبھالنے اور طلبہ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔
اوسلو سے تعلق رکھنے والے ایران انسانی حقوق کے گروپ کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل سوار سکیورٹی اہلکار ایک زیرزمین پارکنگ میں بھاگنے والے طلبہ کا پیچھا کر رہے ہیں۔
جبکہ ایک اور ویڈیو میں پکڑے جانے والے طلبہ کو لے جایا جا رہا ہے جس کے چہروں کو کالے کپڑوں کے ساتھ ڈھانپا گیا ہے۔
ایک اور فوٹیج میں گولیاں چلنے اور لوگوں کے چیخنے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور ایک گلی میں بڑی تعداد میں لوگ بھاگ رہے ہیں۔
ایران ہیومن رائٹس گروپ نے اتوار کی رات ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آج رات سکیورٹی اہلکاروں نے تہران میں شریف یونیورسٹی پر حملہ کیا اور گولیاں چلنے کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔‘
اسی طرح سامنے آنے والے ایک ویڈیو کلپ میں لوگوں کو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’مت ڈرو، ہم سب ساتھ ہیں۔‘
ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو تہران کے شریعتی میٹرو سٹیشن کی ہے۔
انسانی حقوق کے امریکی گروپ ’سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران‘ کا کہنا ہے کہ شریف یونیورسٹی کی ویڈیوز قابل تشویش ہیں جن میں مظاہرین پر تشدد کیا جا رہا ہے جبکہ گرفتار کیے جانے والوں کو چھپا کر لے جا رہا ہے۔‘
مہر نیوز ایجنسی کے مطابق تشدد کے واقعات کے بعد طلبہ کے تحفظ کی غرض سے شریف یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ پیر سے تمام کلاسیں ورچوئل ہوں گی۔
16 ستمبر کو پولیس حراست میں خاتون مہسا امینی کی ہلاکت سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ پرتشدد واقعات میں اب تک درجنوں کی تعداد میں اموات ہو چکی ہیں جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

شیئر: