Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ سے کروڑوں پاؤنڈز کی منتقلی، عمران خان کی سابق کابینہ نیب میں طلب

اس کیس کے حوالے سے 2019 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا(فائل فوٹو: پی ایم او)
پاکستان کے قومی احتساب بیورو(نیب) نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)  کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی19 کروڑ پاؤنڈ رقم کی انہی کو واپس کرنے کے فیصلے پر تحقیقات شروع کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو طلبی کے سمن جاری کر دیے ہیں۔
اردو نیوز کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق نیب راولپنڈی نے پرویز خٹک ، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت تین دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کر لیا ہے۔
ان مذکورہ ارکان کو خبردار کیا گیا ہے کہ نیب میں پیش نہ ہونے کی صورت میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دستاویزات کے مطابق نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کابینہ ارکان کو بطور گواہ طلب کیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے تین دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر دو پر فیصلہ کیا گیا۔‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر دو کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘
اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کر دیا جائے۔
’اس جرم کے حوالے سے آپ کے پاس اطلاعات اور ثبوت وغیرہ ہیں۔ اس لیے آپ کو نیب کے دفتر میں طلب کیا جاتا ہے۔‘
نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کے علاوہ کابینہ کے ارکان کو طلبی کے نوٹس بھیجے گئے ہیں۔
 سب سے پہلے سابق وزیر مواصلات مراد سعید اور سابق وزیر ہوابازی غلام سرور خان کو 11 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے جبکہ علی ریاض اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو 12 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے۔
زبیدہ جلال اور حماد اظہر کو 13 اکتوبر کو پیش ہونے کا نوٹس دیا گیا ہے۔

نیب راولپنڈی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو مختلف تاریخوں میں طلب کیا ہے (فائل فوٹو: پی ایم او)

شفقت محمود اور شیریں مزاری کو 14 اکتوبر، خالد مقبول صدیقی اور اعجاز شاہ کو 17 اکتوبر کو نیب میں طلب کیا گیا ہے۔
علی امین گنڈا پور اور فروغ نسیم کو 18 اکتوبر جبکہ علی زیدی اور خسرو بختیار کو 19 اکتوبر کو نیب پیشی کا نوٹس دیا گیا ہے۔
اعظم سواتی اور اسد عمر کو 20 اکتوبر، عمر ایوب اور محمد میاں سومرو کو 21 اکتوبر، شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری کو 24 اکتوبر کو نیب کے دفتر بلایا گیا ہے۔
صاحبزادہ محبوب سلطان اور فیصل واوڈا کو 25 اکتوبر کو نیب میں پیش ہونے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔

نیب کیس کا بیک گراونڈ کیا ہے؟

آج سے تین برس قبل یعنی 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔
این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کر دیا گیا۔
تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔
اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاست پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔
اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کر دیا گیا تھا۔

برطانیہ سے آنے والی رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 بلین روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے ادائیگی کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومت پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
اس حوالے سے اس وقت ٹویٹر پر اپنے موقف میں ملک ریاض نے کہا تھا کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔‘

پی ٹی آئی کا موقف

پی ٹی آئی کی جانب سے موقف دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نیب کی طرف سے کابینہ اراکین کو بطور گواہ طلبی کا نوٹس ریاست کی توہین ہے۔

فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نیب کی طرف سے کابینہ اراکین کو بطور گواہ طلبی کا نوٹس ریاست کی توہین ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کابینہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی ادارے کو جوابدہ ہے تو وہ پارلیمان ہے۔ اس فورم کے علاوہ کسی ادارے کا کابینہ اراکین کو طلب کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت سے کہتا ہوں اپنے انتقام کے لیے اداروں کا بیڑہ غرق نہ کریں۔‘
 
 

شیئر: