Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی مظاہرین سے اظہار یکجہتی، انڈیا میں خواتین نے بال کاٹ دیے

انڈیا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایرانی مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کیا ہے۔ فوٹو: اے پی
انڈیا میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین نے ایران میں حکومت مخالف مظاہرین اور ایرانی خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے بال کاٹنا شروع کیے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ’انڈیا ٹوڈے‘ کی اینکر گیتا موہن نے سنیچر کو براہ راست نشریات کے دوران اپنے بالوں کو کاٹتے ہوئے ناظرین کو بتایا کہ ایران میں مہسا امینی کی موت نے ’ایک انقلاب کا آغاز کیا ہے۔‘
گزشتہ دنوں ایران میں سنہ 2009 کے بعد ملکی تاریخ کے سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہروں میں شدت دیکھی گئی ہے۔
ستمبر کے وسط سے ایران میں شروع ہونے والا احتجاج ملک کے تمام صوبوں اور 80 شہروں تک پھیل گیا ہے۔
خواتین کے مظاہروں کو 22 سالہ مہسا امینی کی حراست میں موت نے بھڑکایا تھا، جسے ایرانی پولیس نے اپنے سر پر سکارف کو درست طریقے سے نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
انڈٰیا میں بہت سی خواتین نے ایران میں حجاب کے لازمی ہونے کے قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرین سے یکجہتی کرتے ہوئے اپنے بال کٹوانے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
اینکر گیتا موہن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’خواتین کو ترقی یافتہ دنیا، مشرق اور مشرق بعید میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام خواتین سے میں کہتی ہوں کہ ابھی اٹھ کھڑی ہو جاؤ، یہ اب ہے یا پھر کبھی نہیں۔ میں آج ان تمام خواتین اور آزادی کی لڑائی کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی ہوں۔‘
انڈیا کے علاقے نوئیڈا سے تعلق رکھنے والی کارکن اور معالج ڈاکٹر انوپما بھردواج نے سوشل میڈیا پر ایرانی خواتین کی حمایت کا ایسا ہی مظاہرہ کیا جس میں ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بال کٹوائے اور دوسروں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ 21 ویں صدی میں اس طرح کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں۔ سب کو مل کر ایسے ظالمانہ اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔
ماحولیات ، جنہیں انڈیا کی گریٹا تھنبرگ کہلائے جانے والی دس برس کی ماحولیاتی کارکن لسیپریا کنگوجام نے سنیچر کے روز نئی دہلی میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے اکیلے احتجاج کیا۔ انہوں نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ’ایران کی خواتین کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔‘ کنگوجام نے بھی اپنے بال کاٹے تھے۔
لسیپریا کنگوجام نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز دیکھ کر بہت حیران ہوں کہ کس طرح ایرانی حکومت کی جانب سے مہسا امینی کی موت کے بعد جمہوری احتجاج کرنے پر سکول کے بچوں اور نوجوان خواتین کو روزانہ بری طرح سے مارا پیٹا جا رہا ہے۔‘

دنیا بھر میں ایرانی خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایرانی حکام کی جانب سے مظاہرین پر کریک ڈاؤن تیز کرنے کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ناروے میں مقیم ایران ہیومن رائٹس کا تخمینہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کم از کم 154 ہے۔
کنگوجام نے کہا کہ ’یہ ناقابل قبول ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا کو ان بہادر ایرانی خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑا ہونا چاہیے جو آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں۔
انڈیا میں ہی ایک سیاسی اور سماجی کارکن صدف جعفر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں حیران ہوں کہ جب ہمارے ملک میں مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے کے حقوق سے محروم کیا گیا تو یہ خواتین کیوں خاموش تھیں۔‘

شیئر: