Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین میں ہماری فوج کے لیے صورت حال پریشان کُن ہے:روسی کمانڈر

روس نے حملے کے ابتدائی دنوں میں خیرسن پر قبضہ کیا تھا (فوٹو: روئٹرز)
یوکرین میں موجود روسی فوج کے نئے کمانڈر نے تسلیم کیا ہے کہ انہیں ان جنوبی اور مشرقی علاقوں میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے جن کو روس نے حال ہی میں اپنے ساتھ ملانے کا دعوٰی کیا تھا۔
 برطانوی خبر رساں اداے روئٹرز کے مطابق یہ صورت حال روس کے لیے تشویش کی ایک اور علامت ہے۔
سٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کے حامل جنوبی علاقے خیرسن میں روسی چیف نے منگل کو کہا تھا کہ دریائے دنیپرو کے کنارے واقعہ چار قصبوں سے شہریوں کی ’منظم اور بتدریج نقل مکانی‘ ہوئی ہے۔
روسی ایئر فورس کے جنرل سرگئی سروویکن جو اب روسی فورس کی کمان کر رہے ہیں، نے ریاستی نیوز چینل 24 بتایا کہ ’ملٹری آپریشن کے حوالے سے موجودہ صورت حال کو پریشان کن قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
خیرسن کے حوالے سے سروویکن نے بتایا کہ ’وہاں مشکل صورت حال کا سامنا ہے، وہاں دشمن فوجیں جان بوجھ کر انفراسٹرکچر اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔‘
پچھلے چند ہفتوں کے دوران خیرسن کے علاقے سے روسی فوج کو 20 سے 30 کلومیٹر تک پیچھے دھکیلا گیا ہے اور اس کو 22 کلومیٹر طویل دریائے دنیپرو جو یوکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، کے کنارے گھیرے جانے کا خطرہ ہے۔
زیپوریزہیا کے علاقے میں روس کی گورننگ کونسل کے رکن ولادیمیر روگوف کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوج نے رات کے وقت حملے تیز کر دیے ہیں جہاں زیادہ تر زیپوریزہیا پاور سٹیشن کے ملازمین رہائش پذیر ہیں۔

یوکرین نے روسی فوج پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات لگائے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے میسنجنگ ایپ ٹیلی گرام پر بتایا کہ بدھ کو مقامی پاور سٹیشن کے قریب 10 فضائی حملے ہوئے۔
روئٹرز آزادانہ ذرائع سے اس اطلاع کی تصدیق نہیں کرا سکا۔
یوکرین اور روس دونوں ہی عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتے آئے ہیں جبکہ یوکرین نے روسی فوج پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات لگائے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کے نام 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقدام کا مقصد روس کی سلامتی کو یقینی بنایا اور یوکرین میں روسی زبان بولنے والوں کو تحفظ دینا تھا۔
دوسری جانب یوکرین نے روس پر الزام لگایا ہے کہ ماسکو نے بلااشتعال ایک بڑا قدم اٹھایا اور جنگ چھیڑ دی، اس کا مقصد پڑوس میں مغربی ممالک کے حمایتی ملک پر قبضہ کرنا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کے نام 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سروویکنی کے مطابق ’کوپیانسک، لائمن، مائیکولیف اور کرائیوی میں روسی فوجوں پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے۔‘
وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہوئے دکھائی دیے کہ یوکرینی فوج خیرسن کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے جو دریائے دنیپرو کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔
روس نے اس شہر پر حملے کے ابتدائی دنوں میں قبضہ کیا تھا اور وہ اب تک کا واحد شہر ہے جس پر مکمل طور پر روس کا قبضہ برقرار ہے۔
خیرسن جزوی طور پر یوکرین کے ان چار صوبوں میں شامل ہے جن کو روس نے اپنے ساتھ ملانے کا دعوٰی کیا تھا۔ یہ 2014 میں روس کے قبضے میں آنے والے کریمیا کے لیے واحد زمینی راستہ ہے۔

شیئر: