Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی حکومت کا مظاہرین پر حملوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے: اقوام متحدہ

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے مظاہرین کے خلاف کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے (فوٹو: اے پی)
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ووکر ٹَرک نے ایران میں مظاہرین کے خلاف ظالمانہ حکومتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ ’مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد خلاف جاری احتجاج اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک 23 بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے جن کو قریب سے پیلٹ گنز کا نشانہ بنانے کے علاوہ شدید تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔‘
ہائی کمشنر کی ترجمان روینہ شمدسانی کا کہنا ہے کہ فورسز نے کئی سکولوں پر چھاپے مارے، اور بچوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ ان پرنسپلز کو بھی حراست میں لیا گیا جنہوں نے فورسز کے ساتھ تعاون سے انکار کیا۔
ایران کے وزیر تعلیم نے تصدیق کی ہے کہ ’حکومت کے خلاف احتجاج پر گرفتار کیے جانے والے بچوں کو نفسیاتی مراکز بھجوایا گیا ہے۔‘
بچوں کی تعداد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ ’غیر واضح‘ ہے۔
شمدسانی کے مطابق ’انسانی حقوق کے معاہدوں، جن پر ایران نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات میں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرے، اور ان کے آزادی اظہار رائے اور پرامن احتجاج کا احترام کرے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے آفس کو ایسی رپورٹس ملی ہیں کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں جن میں سول سوسائٹی کے کم از کم 90 ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سماجی کارکن، وکیل، فنکار اور صحافی بھی شامل ہیں۔ 12 اکتوبر کو تہران میں بار ایسوسی ایشن کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے تین دکیلوں کو گرفتار کیا گیا۔‘
بڑے پیمانے پر گرفتار کیے جانے جن میں طلبہ اور حزب اختلاف کے سیاست دان بھی شامل ہیں، کو ایون جیل میں رکھا گیا ہے جہاں 15 اکتوبر کو آگ بھڑک اٹھی تھی جبکہ آگ لگنے کے واقعے کے حوالے سے بہت سی باتیں ابھی غیرواضح ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ وہاں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئی تھیں۔
واقعے کے بعد ایرانی حکام نے بتایا تھا کہ اس میں آٹھ قیدی ہلاک اور 61 زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق واقعے کے وقت بہت سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور بڑی تعداد میں دوسری جیلوں میں منتقل کیا گیا۔
شمداسنی نے حکومت کے ناروا سلوک، تشدد اور زخمی قیدیوں کو طبی امداد فراہم نہ کیے جانے کے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کو اس پر شدید تشویش ہے۔
’قانونی عمل میں خلاف ورزیوں کے علاوہ قیدیوں کو وکیل تک رسائی نہ دینا اور قید تنہائی میں رکھنا وہاں عام سی بات ہے۔‘
’مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔‘
دفتر کی جانب سے ایرانی حکام سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کے واقعات کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔

شیئر: