Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طویل ہوتا احتجاج: ’ایرانی حکومت کو ماضی کے مقابلے میں مختلف صورتحال کا سامنا‘

مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران سمیت مختلف ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے سلسلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی صورت حال 1999 کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے جس نے حکمران طبقے کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق حکومت احتجاج کو کچلنے کے لیے ظالمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جن میں اب تک کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید میں ڈالا گیا ہے۔
جولائی 1999 میں طلبہ نے ایک پُرتشدد احتجاج میں حصہ لیا تھا اور چار سال بعد ان لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا جو پچھلے مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح 2009 میں محمود احمدی نژاد کے صدر بننے کے بعد بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے یہ مظاہرے 2010 تک جاری رہے، 2011 اور 2012 میں یہ احتجاج دوبارہ شروع ہوا۔
2017 اور 2021 کے درمیان سیاسی اور سول نافرمانی کی تحریکوں کے علاوہ آن لائن ایکٹیوزم اور احتجاجیی مظاہرے ہوئے۔ 
تاہم احتجاج کا موجودہ سلسلہ سب سے زیادہ طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت سے شروع ہونے والے احتجاج طویل ہوتا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے 16 ستمبر کو ایرانی پولیس نے مہسا امینی نامی 22 سالہ خاتون کو اس الزام کے تحت حراست میں لیا تھا کہ انہوں نے درست طور پر حجاب نہیں اوڑھا۔ 
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے آزادی اظہار و حقوق ایرین خان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایرانی حکام کو ماضی کے مقابلے کچھ مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
’معاملہ حجاب سے شروع ہوا تھا حالانکہ یہ خواتین کی مرضی کہ وہ پہنیں یا نہ پہنیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران میں دباؤ کا ردعمل دیکھ رہے ہیں جہاں خواتین اب یہ کہہ رہی ہیں کہ ہم اپنے حقوق کو اس طرح سلب نہیں ہونے دیں گے جیسے ہماری ماؤں اور دادیوں کے کیے گئے۔‘
2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد جاری کی تھی جس میں ایرانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی تھی۔

ایرانی حکومت مظاہرین کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ایران میں انسانی حقوق کے حوالے سے مکینزم نے کام شروع کر دیا ہے اور سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔‘
ایرین خان کا کہنا ہے کہ ’ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کے نمائندے کو داخل ہونے کی اجازت نہ دیے جانے کے باوجود ہم پس منظر میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور بہت جلد دباؤ بڑھایا جائے گا کہ عوام کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ضابطہ اخلاق کے مطابق ہم پابند ہیں کہ ہم کچھ شائع کرنے سے قبل ایرانی حکومت کو مطلع کریں، ہم نے مہسا امینی کے کیس کے حوالے سے بہت کچھ شائع کیا ہے جبکہ مزید بھی کیا جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ تحقیقات تو ہو رہی ہیں تاہم ایران جیسے ملک میں ایسے جرائم کے خلاف کارروائی کی توقع رکھی جا سکتی ہے، جہاں حکومت مظاہرین کو دباتی رہی ہے؟
’میں چاہتی ہوں کہ ایسا کرنے والوں کا احتساب آج ہی ہو۔‘

2009 میں محمود احمدی نژاد کے صدر بننے کے بعد بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کو ہیومن رائٹس کونسل کے نمائندے کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ آزاد ماہرین ہوتے ہیں جو رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے سٹاف کے رکن نہیں ہوتے اور ان کو خدمات کے عوض کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔
ایرین خان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، وہ اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل میں سیکریٹری جنرل کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
وہ نمائندہ خصوصی بننے والی پہلی خاتون ہیں جن کو عہدہ 2020 میں دیا گیا تھا۔

شیئر: