Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستونگ اور خاران میں آپریشنز کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج

سی ٹی ڈی کے مطابق ’خاران میں حساس ادارے اور سی ٹی ڈی نے کالعدم بی ایل اے کے دہشت گرد اشفاق احمد عرف جمیل اور اس کے چھ ساتھیوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم نے مستونگ اور خاران میں سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ان آپریشنز میں مارے گئے 10 افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے، جن میں بلوچی زبان کے شاعر تابش وسیم بلوچ بھی شامل ہیں۔‘
بلوچستان پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے رواں ہفتے دو مختلف کارروائیوں میں 10 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سی ٹی ڈی ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’16 اکتوبر کو مستونگ کے علاقے سپلنجی کابو میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا گیا۔ دہشت گردوں کی فائرنگ سے چار سی ٹی ڈی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں کالعدم تنظیم داعش سے تعلق رکھنے والے پانچ دہشت گرد مارے گئے۔‘
اسی طرح 17 اکتوبر کو ایک اور بیان میں سی ٹی ڈی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’خاران کے علاقے گواش سور بڈو میں حساس ادارے اور سی ٹی ڈی نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد اشفاق احمد عرف جمیل اور اس کے چھ ساتھیوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا۔‘
’جیسے ہی سی ٹی ڈی اور حساس ادارے کے اہلکار دہشت گردوں کے ٹھکانے پر پہنچے تو انہوں نے فورسز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس پر فورسز نے احتیاط اور حکمت عملی کے تحت جوابی کارروائی کی۔ اس دوران دہشت گردوں نے دستی بم کا استعمال کیا۔ فائرنگ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔‘

لاپتہ افراد کے لواحقین اور بی ایس او پجار نے مبینہ جعلی مقابلوں اور نشتر ہسپتال ملتان سے لاشوں کی برآمدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا (فوٹو: بی ایس او پجار)

سی ٹی ڈی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’تین دہشت گرد بشمول اشفاق احمد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے جبکہ چار دہشت گردوں کی لاشیں موقع سے قبضے میں لی گئیں۔ ان کی شناخت سلال احمد، شکر اللہ اور وسیم سجاد کے نام سے ہوئی جبکہ چوتھے کی پہچان بعد میں فرید کے نام سے ہوئی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’دہشت گرد اشفاق اور اس کے دو ساتھی سلال احمد اور فرید رواں سال فروری میں نوشکی پر ایف سی کیمپ  پر حملے میں ملوث رہے تھے۔‘
تاہم لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بی ایس او پجار نے الزام عائد کیا ہے کہ ’مستونگ اور پھر خاران میں مارے گئے افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے۔‘
لاپتہ افراد کے لواحقین اور بی ایس او پجار نے مبینہ جعلی مقابلوں اور نشتر ہسپتال ملتان سے لاشوں کی برآمدگی کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’مستونگ کے علاقے سپلنجی کابو میں جن چھ افراد کو آپریشن میں مارنے کا دعویٰ کیا گیا وہ پہلے سے لاپتہ تھے۔ ان میں سے عبداللہ ساتکزئی چار سال، حبیب الرحمان سات سال اور داؤد شاہوانی دو سال سے لاپتہ تھے۔‘
’خاران میں جن چار افرا کو مارا گیا ان میں سے تین کی شناخت ہوئی وہ بھی پہلے سے لاپتہ تھے۔ ان میں شاعر تابش وسیم کو 20 جون 2021 کو خضدار سے، سلال کو 6 اکتوبر اور فرید کو 28 ستمبر کو کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا تھا۔‘

نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ سپریم کورٹ نشتر ہسپتال سے لاشوں کی برآمدگی کے معاملے کا نوٹس لے (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2021 اور 2022 میں نو جعلی مقابلوں میں 85 افراد کو قتل کیا گیا۔ ان میں سے جن کی پہچان ہوئی وہ پہلے سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔‘
نصر اللہ بلوچ نے ملتان کے نشتر ہسپتال سے لاشوں کی برآمدگی کو بڑا انسانی المیہ قرار دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ معاملے کا نوٹس لے کر انصاف کے تقاضے پورے کرے۔

شیئر: