Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرینی فوج خیرسن شہر میں داخل، یہ’غیرمعمولی فتح‘ ہے: وائٹ ہاؤس

خیرسن میں یوکرین کی افوج کے داخل ہونے پر شہریوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس نے یوکرین کی افواج کی جانب سے خیرسن کے علاقے کو روس سے واپس لینے کو سراہتے ہوئے اس کو ’غیرمعمولی فتح‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ ایک غیرمعمولی فتح ہے کیونکہ ایک علاقائی دارالحکومت جو روسی افواج نے جنگ میں لے لیا تھا وہاں یوکرین کی فوج نے دوبارہ اپنا جھنڈا لگا دیا ہے۔ اور یہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔‘
امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر یوکرین کے فوجیوں کے خیرسن شہر میں داخل ہونے کے بعد بات کر رہے تھے جس پر روسی فوج نے کچھ عرصہ پہلے قبضے کیا تھا۔
کمبوڈیا میں آسیان کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے جیک سلیوان نے کہا کہ روسی پسپائی کے ’وسیع تر سٹریٹیجک اثرات‘ ہوں گے جن میں روس کی طرف سے دوسرے جنوبی یوکرینی شہروں جیسے اوڈیسا کے لیے طویل مدتی خطرے میں کمی بھی شامل ہے۔
سلیوان نے کہا کہ ’یہ ایک بڑا لمحہ ہے اور یہ یوکرین کے لوگوں کی ناقابل یقین استقامت اور مہارت کی وجہ سے ہے، جسے امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کی انتھک اور مستقل حمایت حاصل ہے۔‘
ان اطلاعات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ بائیڈن انتظامیہ نے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر ماسکو کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا ہے، سلیوان نے جواب دیا کہ یوکرین نہیں، روس وہ فریق تھا جس نے مذاکرات کی میز پر جانے سے انکار کیا تھا۔
’مغربی میڈیا میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یوکرین کب مذاکرات کرنے جا رہا ہے تو اس بنیادی چیز کو نظرانداز کر دیتا ہے۔‘

روسی فوج نے متعدد یوکرینی شہریوں کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اُن کا کہنا تھا کہ روس یوکرین کے مختلف علاقوں کی اپنے ساتھ خود ساختہ الحاق کے بارے میں دعوے کرتا ہے اور جب یوکرین فوج جوابی حملے کرتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
’یوکرین اس تنازع میں امن کا فریق ہے اور روس جنگ کا فریق ہے۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا، اگر روس نے یوکرین میں لڑائی بند کرنے کا انتخاب کیا اور چھوڑ دیا، تو یہ جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ اگر یوکرین نے لڑائی بند کرنے اور ہار ماننے کا انتخاب کیا تو یہ یوکرین کا خاتمہ ہوگا۔‘
امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے کہا کہ ’اس تناظر میں، ہماری پوزیشن وہی ہے جو پہلے تھی اور یہ بنیادی طور پر صدر زیلنسکی کی قریبی مشاورت اور حمایت میں ہے۔‘

شیئر: