Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان پر حملے کی تحقیقات، جے آئی ٹی پر وفاقی حکومت کا اعتراض

عمران خان پر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے تین نومبر کو وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا (فائل فوٹو: اردو نیوز)
وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان پر فائرنگ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے محکمہ داخلہ پنجاب کو مراسلہ لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی میں تمام ممبران پنجاب پولیس سے تعلق رکھتے ہیں۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 19 (1) کے تحت کسی بھی دوسرے تحقیقاتی ادارے کے افسر خاص بشمول انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار کی  شمولیت ضروری ہے۔
’تاہم جے آئی ٹی میں کسی اور ایجنسی یا خفیہ ادارے کا نمائندہ شامل نہیں ہے اور تمام ممبران پنجاب پولیس سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
مراسلے میں وفاقی حکومت نے جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی کے نمائندے شامل کرنے کی تجویز دی کہ اچھا ہوگا پنجاب حکومت  جےآئی ٹی میں وفاقی ایجنسیز کے نمائندے بھی شامل کرے۔
مراسلے  میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کا سربراہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بنایا جن کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن معطل کرچکا ہے۔
’غلام محمود ڈوگر کو عارضی طور پر فیڈرل سروس ٹربیونل سےریلیف ملا، ایسےآفیسر کو جےآئی ٹی کا سربراہ مقرر کرنے سے شفاف تحقیق ممکن نہیں۔‘
خیال رہے منگل کو پنجاب حکومت نے وزیرآباد میں عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
‏ مشیر داخلہ پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر جے آئی ٹی کے کنوینر ہوں گے۔
‏جے آئی ٹی میں آر پی او (ڈیرہ غازی خان) سید خرم علی، احسان اللہ  (اے آئی جی) مانیٹرنگ، انویسٹی گیشن برانچ)، ایس پی پوٹھوہار ملک طارق محبوب اور نصیب اللہ خان، ایس پی سی ٹی ڈی بھی ٹیم میں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان پر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے تین نومبر کو وزیرآباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

منگل کو پنجاب حکومت نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اس حملے میں عمران خان کو چار گولیاں لگیں، جبکہ سات سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد عمران خان کئی روز تک شوکت خانم ہسپتال لاہور میں زیرعلاج رہے۔
اسی حملے کے دوران تحریک انصاف کا ایک کارکن معظم، حملہ آور کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا۔
عمران خان نے اس حملے کا الزام وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک فوجی افسر پر عائد کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس واقعے کی ایف آئی آر میں ان تینوں شخصیات کو نامزد کیا گیا تھا تاہم مقدمے میں ان کا ذکر موجود نہیں۔

شیئر: