Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پروین رحمان قتل کیس: سزا پانے والوں کی سزائیں کالعدم

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن کے پیش کردہ شواہد صرف ملزمان کو مشکوک بناتے ہیں (فوٹو: انٹو لسٹ)
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ نے سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل کیس میں سزا پانے والے افراد کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم قرار دے دی ہیں۔
عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے احکامات جاری کیے ہیں کہ اگر سزا پانے والے دیگر کیسز میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔
پیر کے روز سندھ ہائی کورٹ نے کراچی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سابق سربراہ پروین رحمان کے قتل میں سزا پانے والے رحیم سواتی، امجد حسین، احمد حسین، عمران سواتی اور ایاز سواتی کی سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن کے پیش کردہ شواہد صرف سزا پانے والوں کو مشکوک بناتے ہیں۔ پراسیکیوشن اور مدعی مقدمہ کے وکلا ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکے ہیں۔ سامنے آنے والے شکوک و شبہات سزا پانے والوں کو بری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
عدالتی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول سزا پانے والوں کے ہتھیار سے نہیں ملتے، اور ان کی گرفتاری کے وقت سے ایسا کوئی ہھتیار بھی برآمد نہیں کیا گیا ہے، پروین رحمان کے قتل میں نامزد سزا پانے والوں کا قاری بلال سے تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل باتیں پہلے سے منظر عام پر تھیں، جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کسی ملزم کی سزا یا بے گناہی کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ سزا پانے والوں پر قتل میں معاونت کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں، کیس میں ایک نہیں کئی شکوک و شبہات موجود ہیں اور کیس میں شک کا فائدہ سزا پانے والوں کو دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سماجی کارکن اور اونگی پائلٹ پروجیکٹ کی سابق سربراہ پروین رحمان کو 2013 میں کراچی کے علاقے منگھو پیر میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔
پروین رحمان کون تھیں؟
 پروین رحمان کراچی کی ایک معروف سماجی کارکن تھی۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ انہوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش کی علحیدگی کے بعد کراچی ہجرت کی تھی اور آخری وقت تک اپنی زندگی کراچی میں بسنے والوں کے مسائل حل کرنے میں ہی گزاری تھی۔ انہیں 1988 میں اورنگی ٹاؤن پائلٹ پروجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
پروین رحمان کراچی کی کچی آبادیوں کے قیام اور ان علاقوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف آواز بلند کرتی تھیں۔ ان پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تربیت، صحت، پینے کے صاف پانی کے حصول سمیت دیگر سماجی موضوعات پر پروین رحمان کو ایک توانہ آواز سمجھا جاتا تھا۔ پروین رحمان کے قتل پر سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔

پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا (فوٹو: انٹو لسٹ)

پولیس کی جانب سے قتل کے واقعہ کے بعد تحقیقات میں سست روی پر مدعی مقدمہ پروین رحمان کی ہمشیرا اور ہیومن رائٹس کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس کے عدالتی احکامات پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کیس میں ایک جی آئی ٹی تشکیل دی گئی۔
ملزمان کب گرفتار ہوئے اور سزا کب ہوئی؟
پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا، آٹھ سال بعد 17 دسمبر 2021 کو کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا۔
جرم ثابت ہونے پر چار سزا پانے والوں محمد رحیم سواتی، ایاز علی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان اور احمد خان عرف احمد علی عرف پپو شاہ کشمیری کو دو، دو بار عمر قید کی سزا اور مجموعی طور پر تین لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ جرمانوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں چاروں سزا پانے والوں کو مجموعی طور پر مزید ایک سال قید کی سزا کا حکم دیا گیا۔
ساتھ ہی ایاز علی عرف سواتی، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف احمد علی عرف پپو شاہ کشمیری اور محمد عمران سواتی کو شواہد مٹانے کا جرم ثابت ہونے پر مجموعی طور پر ساڑھے سات سال قید، مجموعی طور پر 75 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ عدالت نے کیس میں اشتہاری دو ملزمان موسیٰ اور شہداد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
استغاثہ کے مطابق 13 مارچ 2013 کو مدعی مقدمہ ولی داد نے شکایت درج کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ  اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں گزشتہ 20 سال سے بطور ڈرائیور فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس کی ڈیوٹی ڈائریکٹر پروین رحمان کے ساتھ  تھی کہ 13 مارچ 2013 کو جب اس نے پروین رحمن کو دفتر سے گھر لے جانے کے دوران مین منگھو پیر روڈ پختون مارکیٹ کے قریب سپیڈ بریکر پر جب کار کی رفتار آہستہ کی ہی تھی تو اچانک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی۔ جس کے نتیجے میں پروین رحمان کی موت واقع ہوئی۔
مدعی کی شکایت پر تھانہ پیر آباد میں مقدمہ درج کیا گیا۔ ایک روز بعد پولیس تحقیقات کے سلسلے میں کالعدم تنظیم کے مقامی رہنما قاری بلال کو گرفتار کرنے پہنچی تو وہ جعلی مقابلے میں مارا گیا اور کیس کی فائل بند کر دی گئی۔

سپریم کورٹ نے 2015 میں اس کیس کا از خود نوٹس لے کر تحقیقات دوربارہ کرنے کا حکم دیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)

سپریم کورٹ نے اپریل 2015 میں اس کیس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات دوربارہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ رحیم سواتی کو خیبرپختون خواہ کے علاقے سے گرفتار کیا گیا جس نے دوران تفتیش پروین رحمان کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات میں سامنے آنے والے انکشافات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انہیں اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا۔
 گرفتار ملزم امجد حسین نے جے آئی ٹی کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار پروین رحمان سے زمین مانگ رہے تھے اور انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کروا دیا گیا۔
ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کیس میں پہلے سے گرفتار ملزم رحیم سواتی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاقائی عہدیدار ایاز سواتی پروین رحمان سے علاقے میں جِم کھولنے کے لیے زمین مانگ رہے تھے۔ پروین رحمان کے انکار پر جنوری 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پروین رحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس میں امجد حسین، ایاز سواتی، رحیم سواتی اور احمد عرف پپو شامل تھے۔

امجد حسین اور دیگر ملزمان نے دو ماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی (فوٹو: انٹو لسٹ)

قتل کے لیے رحیم سواتی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے موسٰی اور محفوظ اللہ عرف بھالو نامی دو علاقائی عہدیداروں سے رابطہ کیا جو 40 لاکھ روپے کے عوض پروین رحمان کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
امجد حسین اور دیگر سزا پانے والوں نے دو ماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی جس کی تفصیلات کالعدم تنظیم تک پہنچائی جاتی رہیں۔ موسیٰ اور بھالو نے 23 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو قتل کردیا۔ امجد حسین نے دوران تفتیش جے آئی ٹی کو بتایا کہ رحیم سواتی کی جانب سے 40 لاکھ روپے نہ دینے پر کالعدم تنظیم نے رحیم سواتی کے گھر دستی بم حملہ بھی کیا تھا۔
پولیس نے 18 مارچ 2015 کو مانسہرہ سے قتل میں ملوث احمد خان عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا، جبکہ منگھو پیر سے رحیم سواتی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔ پروین رحمان کا کیس تین بار چلایا گیا اور پانچ جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں تھیں۔ پروین رحمان نے اپنی زندگی میں ہی قتل کے خدشات کا اظہار  کیا تھا۔

شیئر: