Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خواب دفنا کر آئی ہوں، افغانستان واپس نہیں جاؤں گی‘

خاتون صحافی ترینا راشدی پاکستان میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ میں اپنا ملک، اپنی زمین چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی دوسرے ملک روانہ ہوں۔ میرے سارے خواب اور میری 20 سال کی محنت اپنے ملک میں تھی اور اپنے ملک کے لیے تھی۔ لیکن اب میں کبھی بھی واپس افغانستان نہیں جانا چاہتی۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ترینا راشدی کا جو ان دنوں پاکستان میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ محدود ویزہ ہونے، اگلے کسی ملک کا ویزہ نہ لگنے اور ایک سال سے مسلسل بے رزگاری نے ان کے لیے کئی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ 
ترینا راشدی اکیلی افغان صحافی نہیں ہیں بلکہ افغان صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے پروگرام مینجر امجد قمر کے مطابق طالبان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد جو افغان صحافی پاکستان آئے ان میں سے  250 سے 300 صحافی اب بھی پاکستان میں موجود ہیں جن میں اکثریت کے ویزے یا تو ختم ہو چکے ہیں یا پھر ان کے پاس سرے سے ویزہ موجود ہی نہیں اور وہ عارضی دستاویزات پر پاکستان پہنچے تھے۔
ان میں سے اکثریت اسلام آباد میں جبکہ پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ سب گذشتہ ایک سال سے اپنے بنیادی روزگار سے بھی محروم ہیں اور شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ان کو عالمی اداروں کی جانب سے امداد اور دیگر ملکوں کے ویزوں کے حصول میں بھی مشکلات ہیں جبکہ ان میں اکثر کی جانوں کو خطرات بھی لاحق ہیں۔‘
9 سال تک افغان میڈیا کا حصہ رہنے والی ترینا راشدی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’میرا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ میڈیا کا حصہ بنوں۔ میں نے تعلیم حاصل کی اور میڈیا کا حصہ بنی۔ 20 سال کی محنت کے بعد میں اپنے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن طالبان کی جانب سے قبضے سے پہلے ہی مجھے دھمکیاں مل رہی تھیں۔‘

جو افغان صحافی پاکستان آئے ان میں سے  250 سے 300 صحافی اب بھی پاکستان میں موجود ہیں

انہوں نے بتایا کہ ’جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو میں چھ مہینے تک جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر میں پاکستان کا ویزہ لے لے جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچی اور میں نے ہمیشہ کے لیے افغانستان کو خیرآباد کہہ دیا۔‘
’یہ میرے لیے بہت مشکل تھا میں اپنے بہت سے خواب دفنا کر آئی ہوں‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرے پاس ایک سال کا ویزہ ہے جس میں سے صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ میری فیملی میرے ساتھ ہے اور میں اپنے طور پر گزارا کر رہی ہوں۔ اس وجہ سے مالی طور پر کمزور ہوچکی ہوں۔ یہ مشکلات میں ذاتی طور پر جھیل رہی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بطور مہاجر کسی ملک میں جینا آسان نہیں ہے۔ میرا ایک سال پوری طرح ضائع ہوگیا ہے لیکن میں پاکستان سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں جاکر نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں بلکہ اپنا پیشہ وارانہ کام صحافت بھی جاری رکھنا چاہتی ہوں عنقریب میں بین الاقوامی میڈیا کا حصہ بننا چاہتی ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ترینا راشدی نے کہا کہ ’افغانستان میں جن حالات کا سامنا کیا اور میرے خاندان کو میری وجہ سے جو کچھ برداشت کرنا پڑا اس کے بعد میں کبھی بھی افغانستان واپس نہیں جانا چاہتی۔‘
ترینا کی طرح محمد رضا پارسا کو بھی طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینا پڑی۔ ان کا ویزہ ختم ہو چکا ہے اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے ان کے ویزہ میں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر توسیع دینے سے انکار کر دیا ہے۔ 

ترینا کی طرح محمد رضا پارسا کو بھی طالبان کی جانب سے دھمکیوں کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینا پڑی (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’دل میں ہزاروں وسوسے لیے اس افغانستان کو چھوڑنا پڑا تھا جس کے لیے میں نے اور میرے خاندان نے بہت کچھ کرنے کا سوچا تھا اور کر رہےتھے۔ پاکستان پہنچ کر سکھا کا سانس تو لیا لیکن اپنا ملک، اپنی اقدار کھونے کا غم اور غصے کی تلخی آج بھی ہمارے حلق میں موجود ہے۔‘
محمد رضا پارسا نے بتایا کہ ’ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری کوئی شناخت نہیں ہے بینک اور دیگر سہولیات استعمال کرنے سے محروم ہیں اور سب سے برا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ملک چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ ہمارے کیسز کو بہت آہستگی سے دیکھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہم کہا جائیں؟ یہی ہماری سب سے بڑی پریشانی ہے۔‘
محمد رضا بھی نہ صرف اپنا صحافتی سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ترینا کے برعکس ایسے افغانستان میں واپس جانا چاہتے ہیں جہاں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا احترام ہو اور میڈیا آزاد اور جمہوریت کا بول بالا ہو۔ 
ان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے عام معافی کے کسی اعلان پر بھروسہ نہیں ہے۔ 

شیئر: