Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور انگلینڈ کا وہ میچ جس میں نصرت بھٹو کا سر پھٹا

معروف فوٹو گرافر اظہر جعفری نے ان کے خون آلود چہرے کی تصویر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کی۔ (فوٹو: اظہر جعفری)
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم سترہ برس بعد آج پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔
اس کی آمد سے پہلے ملک کی سیاسی صورت حال میں خاصا تناؤ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے پہلا ٹیسٹ راولپنڈی سے کراچی منتقل کرنے پر غور ہوتا رہا لیکن پھر سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے اور تحریک انصاف کی طرف سے اس یقین دہانی  کے بعد کہ اس کے حامی میچ میں رخنہ نہیں ڈالیں گے، میچ شیڈول کے تحت پنڈی میں کروانے کا فیصلہ برقرار رہا۔
26 نومبر کو  عمران خان نے  لانگ مارچ ختم کرکے متبادل سیاسی رستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا تو مطلع بالکل صاف ہوگیا، اس لیے امید ہے کہ آج سے شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ میں شائقین کی بڑی تعداد سٹیڈیم کا رخ کرے گی اور انہیں اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔
 اس تمہید کا مقصد ماضی سے رجوع کرکے انگلینڈ کے دو ایسے دوروں کا ذکر کرنا ہے جب پاکستان کی سیاسی فضا حال کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھمبیر تھی۔
1977  میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو ضیا الحق کا مارشل لا نافذ تھا۔ ملک  کے مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو جیل میں تھے اور لاہور ہائی کورٹ میں ان پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں، صحافیوں اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس پر یہ بڑا بھاری وقت تھا لیکن سب سے بڑھ کر بھٹو خاندان کو آزمائش کا سامنا تھا جس کی سیاسی زمام کار نصرت بھٹو کے ہاتھ میں تھی۔
دسمبر1977 میں لاہور ٹیسٹ کا تیسرا دن قذافی سٹیڈیم میں نصرت بھٹو کی  آمد کے باعث خاصا ہنگامہ خیز رہا جنھوں نے عوام سے رابطے کے امکانات مسدود ہونے پر میچ کو عوامی رابطے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔
ان کو سٹیڈیم میں جانے سے روکنے کی بڑی کوشش ہوئی لیکن وہ اپنے طرف داروں کے جلو میں اندر جانے میں کامیاب ہو گئیں۔ پولیس نے بھنا کر سٹیڈیم میں پیپلز پارٹی کے حامیوں کو  منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور تشدد کا سہارا لیا۔
نصرت بھٹو کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس اہلکار کی لاٹھی لگنے سے ان کا سر پھٹ گیا اور انہیں کئی ٹانکے لگے۔ معروف فوٹو گرافر اظہر جعفری نے ان کے خون آلود چہرے کی تصویر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے ضیا دور کی ظلمت کی یہ نشانی تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرلی۔
نامور کالم نویس اور دانش ور وجاہت مسعود نے اس تصویر کے بارے میں لکھا: ’سٹیڈیم کے دروازے پر لاٹھیاں برس رہی تھیں۔ اظہر جعفری بالکل ٹھیک جانتا تھا کہ کون سی تصویر میں حقیقی خبر ہے۔ 24 سالہ اظہر جعفری نے بیگم بھٹو کے زخمی سر اور لہو میں لتھڑے چہرے کی تصویر اتاری۔ بیگم بھٹو کی یہ تصویر ضیا آمریت کے گلے میں گیارہ برس لٹکتی رہی۔‘
اس دن میچ مقررہ وقت سے 55 منٹ پہلے ختم کرنا پڑا۔

مدثر نذر وکٹ پر جم کر کھڑے رہے اور 557 منٹ میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی سست ترین سنچری بنائی۔ (فوٹو: پی سی بی ٹوئٹر)

سیاسی فضا جس قدر ’چارج‘ تھی، ٹیسٹ میچ کی رفتار اتنی ہی سست تھی۔ مدثر نذر وکٹ پر جم کر کھڑے رہے۔557 منٹ میں تاریخِ ٹیسٹ کرکٹ کی سست ترین سنچری بنائی۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ جنوبی افریقہ کے جیکی میکگلیو کے پاس تھا۔ مدثر نذر کو ان پر وکٹ پر قیام کے حوالے سے بیس منٹ کی برتری حاصل رہی۔مدثر نذر کا سکور 99 ہوا تو پرجوش اور بیتاب  تماشائی  ان کو مبارکباد دینے گراؤنڈ میں گھس گئے۔
پولیس نے انہیں بڑی بے رحمی سے مارا پیٹا۔ جیف بائیکاٹ نے سست بیٹنگ میں مدثر نذر کی تقلید کی۔ نصف سنچری بنانے کے لیے ان سے بیس منٹ زیادہ وکٹ پر ٹھہرے۔ چار گھنٹے پچاس منٹ میں یہ ’سنگ میل‘ عبور کیا۔ 63 رنز پر آوٹ نہ ہوتے تو ممکن تھا سست ترین سنچری ہی بنا ڈالتے۔
 باہر کی سیاسی فضا اور اندر میچ جس فضا میں ہو رہا تھا اس میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ باہر تو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہیں ہورہا تھا لیکن ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کے کپتان نےاس کی اعلیٰ مثال قائم کی جس کے بیان کے لیے لیفٹ آرم سپنر اقبال قاسم سے معتبر راوی کون ہوگا؟ کیوں؟
یہ جاننے کے لیے آپ ان کی کتاب  ’اقبال قاسم اور کرکٹ‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں: ’انگلینڈ کے آف سپنر کوپ نے یکے بعد دیگرے دو وکٹیں دو گیندوں پر حاصل کرلیں۔ انہوں نے پہلے عبدالقادر کو پھر سرفراز کو آؤٹ کردیا۔ اب میری باری تھی۔ مجھے ہیٹ ٹرک کی بال کا سامنا تھا۔ گیند آئی اور میرے بلے اور دستانے کو چھوتی ہوئی مائیک بریرلی کی طرف گئی۔ انگلش کھلاڑیوں کے اپیل کرنے پر امپائر نے انگلی اٹھا دی۔ حالانکہ میں نے خود دیکھا کہ مائیک بریرلی نے گیند زمین پر لگ جانے کے بعد اٹھائی تھی، مگر امپائر نے انگلی اٹھا دی تو میں نے کریز چھوڑ دی۔ کوپ بہت خوش تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنا بہت بڑا اعزاز ہے۔ لیکن مائیک بریرلی کرکٹ میں ’سب چلتا ہے ‘ کے قائل نہیں۔ بڑے بااصول انسان ہیں۔ انہوں نے فوراً احتجاج کیا اور امپائر سے کہا کہ یہ کیچ نہیں تھا۔ میں نے گیند زمین سے لگنے کے بعد اٹھائی ہے اس لیے اقبال قاسم کو واپس بلایا جائے۔ اس کو کہتے ہیں سپورٹس مین سپرٹ۔ تماشائیوں نے مائیک بریرلی کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔یہ بڑا یادگار واقعہ ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ایسی مثالیں کم ملتی ہیں۔‘
  ضیا الحق  کے پُرآشوب دور میں انگلینڈ کے دورۂ پاکستان کا احوال آپ نے جان لیا۔ ہم آپ کو اب اس سے بھی پیچھے لیے چلتے ہیں جب ہمارا ملک اپنی تاریخ کے ایک اور نازک دور سے گزر رہا تھا۔
یہ 1969 کے شروع کی بات ہے۔ ایوب خان کے اقتدار کا چل چلاؤ تھا۔ ملک کے دونوں حصوں، مشرقی اور مغربی پاکستان میں حکومت کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار سے رخصتی نوشتہ دیوار تھی۔ ان حالات میں ایم سی سی کی ٹیم (1977سے پہلے انگلینڈ کی ٹیم  دوسروں ملکوں کا دورہ میریلبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کی کرکٹ ٹیم کے نام سے کرتی تھی) نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دوسرے ٹیسٹ کے لیے ٹیم ڈھاکا جانے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ، ایم سی سی کو راضی کرنے میں کامیاب رہا۔ برطانوی ہائی کمیشن نے بھی اپنی ٹیم سے ڈھاکا جانے کو کہا، اس فیصلے پر بعد میں اس پر خاصی تنقید ہوئی۔
مشرقی پاکستان کے خراب حالات کے پیش نظر یہ کوئی عاقلانہ فیصلہ نہیں تھا کیونکہ وہاں حکومتی رٹ بہت کمزور ہوچکی تھی۔

انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم سترہ برس بعد آج پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستانی حکومت دورے کے ذریعے ثابت کرنا چاہتی تھی کہ مشرقی پاکستان میں  انارکی نہیں ہے لیکن اس کی یہ چال الٹی پڑی اور حکومت مخالف  گروہوں نے احتجاج کرکے  بیرونی دنیا کی توجہ حاصل کرلی۔
 انگلینڈ کے فاسٹ بولر جان سنو نے اپنی کتاب Cricket rebel میں لکھا ہے کہ کھلاڑی مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کے فیصلے پر خوش نہیں تھے لیکن ڈھاکا میں برطانوی ہائی کمیشن نے یقین دلایا کہ حالات بہتر ہیں اور ٹیم وہاں محفوظ ہوگی۔
جان سنو نے لکھا کہ ڈھاکا میں گزرے سات دن غالباً ان کی زندگی کے سب سے اعصاب شکن دن تھے، جب دن رات گولیاں چلنے کی آواز کانوں میں پڑتی جن میں سے کچھ کی آواز تو ہوٹل سے چند گز کے فاصلے سے سنائی دیتی تھیں۔
  اینڈریو مرٹاہ کے قلم سے  ٹام گریونے کی سوانح  Touched by Greatness: The Story of Tom Graveney سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نائب کپتان کی حیثیت اس دورے کی مخالفت کی تھی۔ احتجاج کرنے والے طلبا جن کے پاس شہر کا کنٹرول تھا انھوں نے دورہ نہ کرنے کی صورت میں برطانوی قونصلیٹ کو جلا دینے کی دھمکی بھی دی جو گریونے کے خیال میں  ٹیم کے ڈھاکا جانے کی وجہ بنی۔
یہ میچ خوف و ہراس  کے گھنے سائے میں مکمل ہوگیا اور مہمان ٹیم نے مغربی پاکستان پہنچ کر سکھ کا سانس لیا لیکن وہاں انہیں ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ تیسرا ٹیسٹ کراچی میں تھا۔ یہاں بھی ایوب خان کے خلاف تحریک زوروں پر تھی لیکن میچ کے دوران جو  کچھ ہوا وہ غالباً کسی کے سان گمان میں نہیں تھا۔
میچ کے تیسرے روز لنچ سے پہلے لوگوں کی بڑی تعداد نے سٹیڈیم پر دھاوا بول دیا۔
کھلاڑیوں نے بڑی مشکل سے پویلین میں پناہ لی جہاں انہیں کافی دیر مقید رہنا پڑا۔ کھیل جس وقت رکا ایلن ناٹ ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی سنچری سے چار رنز کی دوری پر تھے۔ اس لیے سب سے زیادہ مایوسی انھی کو ہوئی۔
حالات کی خرابی کا  اندازہ حنیف محمد کی کتابPlaying For Pakistan  میں شامل ٹام گریونی کی اس  تصویر سے بھی ہو سکتا ہے جس میں وہ وکٹ ہاتھ میں  لیے ہجوم کا سامنے کر رہے ہیں۔

یہ تصویر حنیف محمد کی کتاب Playing For Pakistan میں شامل ہے۔ (فائل فوٹو: محمود الحسن)

اس میچ کے دوران تماشائیوں نے حنیف محمد کی جگہ سعید احمد کو کپتان بنانے کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
سیاسی بحران  ٹیم کے انتخاب پر بھی اثر انداز ہوا۔ طالب علم رہنما  اور پیپلز پارٹی کے جیالے آفتاب گل کو  لاہور ٹیسٹ  میں اس لیے کھلایا گیا کہ وہ طالب علموں کو ممکنہ ہنگامہ آرائی سے باز رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
یہ حربہ کارگر رہا اور یہ ٹیسٹ بغیر کسی بڑے  فساد کے  مکمل ہو گیا۔ دوسری طرف ڈھاکا ٹیسٹ  میں بنگالیوں کی ناراضی کے ڈر سے آصف مسعود کی جگہ مشرقی پاکستان کے نیاز احمد کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔
سابق پاکستانی کپتان مشتاق محمد نے بھی اپنی کتابInside Out  میں بتایا ہے کہ ہجوم نے ہنگامہ آرائی کے دوران  وکٹیں اکھاڑ کر پچ کھود ڈالی۔ ڈھائی گھنٹے ڈریسنگ روم میں بند رہنے کے بعد دونوں ٹیمیں پولیس کی نگرانی میں  ہوٹل کے لیے روانہ ہوئیں تو برافروختہ  ہجوم نے ان کی بسوں پر  پتھراؤ کیا۔
 انگلینڈ کی ٹیم نے اسی رات وطن روانہ ہونے میں عافیت جانی اور یوں تلخ واقعات سے بھری یہ سیریز اختتام کو پہنچی ۔

شیئر: