Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیارے رہنماؤ! فرصت ملے تو غائب ہوتے آٹے کی طرف بھی دھیان دو‘

مہنگائی کا ذکر کرنے والے حکمرانوں کی توجہ پانے کے خواہشمند دکھائی دیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں مہنگائی اور اس کے اثرات کا ذکر جہاں بڑی اکثریت کے روزمرہ معمول کا حصہ ہے وہیں شنوائی نہ ہونے کا شکوہ بھی باقی رہتا ہے۔
اس معمول کے دوران بنیادی اشیائے ضروریہ میں سے کسی چیز کی قیمت بڑھے تو بےچینی میں اضافہ کبھی طنز اور کبھی جھنجھلاہٹ کی صورت ٹائم لائنز پر ذرا زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔
سنیچر کو پاکستانی ٹائم لائنز پر یہی صورتحال بنی تو گندم اور نتیجتاً آٹے کی قیمتوں میں اضافہ، اس مرتبہ گفتگو کا مرکزی نکتہ رہا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ٹویپس نے آٹا دستیاب نہ ہونے، مہنگا ہونے یا اس کے معیار میں تبدیلی کا شکوہ کیا۔ ایسے افراد نے سیاسی قیادت کو مخاطب کیا تو موقف اپنایا کہ ’پیارے رہنماؤ! کچھ فرصت ملے تو غائب ہوتے آٹے کی طرف بھی دھیان دے لیں۔‘
اپنی مختلف ٹویٹس کی وجہ سے تنازعات کا شکار رہنے والے تحریک انصاف کے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے ’ملک میں انارکی، بدامنی‘ کی آہٹ سنی تو خدشے کا اظہار کیا کہ صورتحال باقی رہی تو ملک ’عالمی دنیا سے بھی دور ہو جائے گا۔‘

کاشف نے ذیشان خانزادہ سے اختلاف کرتے ہوئے پوچھا کہ ’جب ان کی حکومت تھی کیا یہ بات عمران خان کو کہی تھی۔‘

عائشہ نے حکمرانوں کو لاپرواہی کا ذمہ دار ٹھہرایا تو سابقہ یا موجودہ کی تفریق کیے بغیر لکھ اکہ ’ان کو ملک کی نہ پہلے پرواہ تھی اور نہ اب ہے۔ یہ صرف اپنے مفاد کے لیے حکومت میں آتے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ ان کی آخری واردات ہو گی۔‘

ثنااللہ خان نے مہنگائی کے نتیجے میں ’ملک کی مڈل کلاس ختم‘ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کسی بھی سیاسی جماعت کو اس صورتحال سے کوئی سروکار نہیں، تمام جماعتوں کا ایجنڈا صرف اقتدار کا حصول ہے۔‘

عبدالستار چوہدری نے اس منظرنامے سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ ’سب کے سب صرف اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں اور عوام مر رہی ہے۔‘

مہنگی ہوجانے والی گندم اور غائب ہوتے آٹے کے اسباب پر بات کرتے ہوئے ملک سعید نے لکھا کہ ’حکومت نے کابینہ میں گندم کی مادادی قیمت تین ہزار روپے تجویز کر دی، سندھ میں چار ہزار روپے، اب تو گندم سندھ ہی جائے گی اور عام آدمی کہاں سے آٹا خریدے گا۔‘

’مار گئی مہنگائی‘ کے پیش ٹیگ کے ساتھ تبصرہ ہوا تو لکھا گیا کہ ’چند روز قبل کی بیان کردہ یہ صورتحال توجہ سے محروم رہی لیکن اب گندم مہنگی اور آٹا غائب ہونا شروع ہو گیا ہے، کوسنوں کا وقت ہوا چاہتا ہے۔‘
یوسف صدیقی نے ’یہ ہوتی ہے تجربہ کاری‘ کے طنز کے ساتھ دعوی کیا کہ ’ساری عمر افغانستان کو آٹا گندم دینے والا ملک پاکستان اب افغانستان سے آٹا خریدے گا۔‘

مہنگائی اور اس کے اثرات وذمہ داری پر ہونے والی گفتگو کے درمیان ابلاغی محاذ خصوصا الیکٹرانک میڈیا سے بھی ترجیحات کی شکایت کی گئی۔
مہنگائی کے اعدادوشمار شیئر کرتے ہوئے احمد وڑائچ نے لکھا کہ ’ٹی وی سکرینوں پر کیا دکھایا جا رہا ہے؟‘

شہزاد گل نے شکوے کا مخاطبین کا دائرہ پھیلاتے ہوئے لکھا کہ ’کاش آج وہ محب وطن صحافی زندہ ہوتے جو ہمیں چینی، آٹے، گھی، پیٹرول، سبزیاں مہنگی ہونے کی خبریں دیا کرتے تھے۔‘

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اپنے طنز، تنقید اور شکووں کے ذریعے ’متعلقہ حلقوں کے نوٹس‘ کی امید تو رکھی ہوئی ہے لیکن ٹیلی ویژن کے خبرنامے، اخبارات اور ڈیجیٹل وسوشل میڈیا ٹائم لائنز پر کہیں آٹا مہنگا اور کہیں غائب ہونے کی خبریں تواتر سے سامنے آرہی ہیں۔

شیئر: