Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس کا کرسمس کے موقع پر یوکرین میں جنگ بندی سے انکار

اینڈری یرمارک کا کہنا ہے کہ رہا کیے جانے والوں میں 64 فوجی بھی شامل ہیں (فوٹو: روئٹرز)
روس نے کرسمس کے موقع پر یوکرین کا فائربندی کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب ’قیدیوں کے تبادلے‘ کے تحت امریکی شہری سمیت متعدد افراد کو رہا کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات نہیں ہو رہے تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ’روس کو کرسمس کے موقع فوجوں کو پیچھے ہٹانا چاہیے تاکہ جنگ خاتمے کی طرف بڑھا جا سکے۔‘
اس کے جواب میں روسی حکام نے کہا ہے کہ ’یوکرین پہلے روس کو پہچننے والے نقصان کو تسلیم کرے۔‘
دوسری جانب امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے تک چلے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے ایک سوال کے جواب میں صحافیوں کو بتایا کہ ’اس وقت ہم جو کچھ یوکرین کی فضاؤں میں اور زمین پر دیکھ رہے ہیں اس جلد کو جلد سمیٹنا مشکل دکھائی دے رہا ہے اور برسوں تک چل سکتی ہے۔‘
بدھ کو صدر زیلنسکی نے بتایا تھا کہ اس روز کیئف پر شدید گولہ باری دیکھنے میں آئی جس میں بڑا ڈرون حملہ بھی شامل تھا۔
بمباری میں دو انتظامی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم دیگر حملوں کو ڈیفنس سسٹم کو ناکام بنایا۔

’قیدیوں کا تبادلہ‘، امریکی شہری سمیت درجنوں افراد کی روس سے رہائی

یوکرینی حکام نے کہا ہے کہ روس نے یوکرین کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے تحت ایک امریکی قیدی سمیت درجنوں دیگر افراد کو رہا کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرینی صدارتی انتظامیہ کے سربراہ اینڈری یرمارک نے ٹیلی گرام پر پیغام میں لکھا کہ سیودی موریکیزی روسی حراست میں جانے سے قبل ہمارے لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 64 یوکرینی فوجیوں اور چار لاشیں روس کی جانب سے حوالے کی گئی ہیں تاہم یہ نہیں بتایا کہ یہ تبادلہ کیسے اور کہاں ہوا اور جواب میں کتنے افراد روس کے حوالے کیے گئے۔
روئٹرز فوری طور پر موریکیزی سے رابطہ نہیں کر سکا۔
برطانوی اخبار گارڈین نے پچھلے ہفتے موریکیزی کے بارے میں بتایا تھا کہ انہیں جون میں خیرسن میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ روس کے قبضے میں تھا۔
اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان (موریکیزی) کو اکتوبر میں رہا کر دیا گیا تھا اور وہ ڈونیسک شہر میں بغیر دستاویز کے رہتے رہے جہاں روس کی حمایت یافتہ گروہوں کا کنٹرول ہے۔
روس کی سرکاری نیوز ایجنسی ٹاس نے اگست میں خبر دی تھی کہ موریکیزی کو ڈونیسک میں روسی حملے کے خلاف احتجاج کے دوران ’نسلی منافرت پھیلانے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
موریکیزی کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ ’اتفاقی طور پر اس احتجاج میں شامل ہو گئے تھے۔‘
 

شیئر: