Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ماسٹر پلان وزیراعلٰی نے عُجلت میں منظور کیا؟

لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر رہائشی اور کمرشل ایریاز کے لیے اگلے 30 سال کے منصوبے کا آغاز سنہ 2020 میں کیا گیا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی آبادی کا رہائشی مسئلہ حل کرنے کے لیے وزیراعلٰی پنجاب نے حال ہی میں لاہور ماسٹر پلان 2050 کی منظوری دی ہے۔
اس ماسٹر پلان پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ریئل سٹیٹ سے وابستہ کاروباری افراد نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ ماحول کے حوالے سے سرگرم سول سوسائٹی اور دیگر طبقوں نے اسے ایک خطرناک پالیسی سے تعبیر کیا ہے۔
پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس پلان پر کڑی تنقید کی ہے اور موجودہ حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ خاص افراد کو نوازنے کے لیے اس پلان کی منظوری دی گئی ہے۔

لاہور ماسٹر پلان ہے کیا؟

شہر لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر رہائشی اور کمرشل ایریاز کے لیے اگلے 30 سال کے منصوبے کا آغاز سنہ 2020 میں کیا گیا۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے ایک غیرملکی فرم کو اس بات کا کنٹریکٹ دیا کہ وہ دو سال میں لاہور کے اگلے 30 سال کے رہائشی منصوبے کے خدوخال بنا کر دے۔
نجی فرم نے اس پر کام شروع کیا اور دو سال میں ایک منصوبہ تیار کیا جسے 21 دسمبر کو ہونے والے ایل ڈی اے کے گورننگ باڈی کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ اس گورننگ باڈی کے چیئرمین خود وزیراعلٰی پنجاب ہوتے ہیں۔
اسی اجلاس میں نہ صرف اس ماسٹر پلان کو منظور کر لیا گیا بلکہ اسی دن ہی اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

لاہور کے نئے ماسٹر پلان کے مطابق ’قصور، شیخوپورہ اور رائیونڈ کے علاقوں میں موجود زرعی زمینوں پر آبادکاریوں کی منظوری دی گئی ہے۔‘ اس سے پہلے ان علاقوں میں موجود زرعی زمینوں کو رہائش کے لیے استعمال کرنے پر پابندی تھی۔
منصوبے میں یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ سنہ 2030 اور 2040 میں اس ماسٹر پلان کی ایک ایک مرتبہ پھر اس وقت کی ضرویات کے مطابق پڑتال کی جائے گی۔
اس ماسٹر پلان کے مطابق ’لاہور قصور روڑ پر للیانی سے آگے، برکی روڑ، شیخوپورہ میں فیروزوالا تحصیل کی زرعی زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جائے گا۔‘

منصوبے پر اعتراضات کیا ہیں؟

سب سے پہلے لاہور کے ماسٹر پلان کی منظوری پر اسی روز اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے اعتراض اٹھایا۔
خیال رہے کہ یہ منظوری اس وقت دی گئی جب وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہو چکی تھی اور گورنر پنجاب نے بھی انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کی ایڈوائس بھیج دی تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لیگی رہنما عطااللہ تارڑ نے الزام عائد کیا کہ ’لاہور کے ماسٹر پلان کی اتنی تیزی میں منظوری ریئل سٹیٹ مافیا کو نوازنے کے لیے دی گئی ہے۔ لاہور کی ساری زرعی زمینوں کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کرنا انتہائی خطرناک ہو گا۔ ریئل سٹیٹ مافیا پہلے ہی کسانوں سے زرعی زمینیں کوڑیوں کے بھاو خرید چکا ہے اب ان زمینوں کو کمرشل ریٹس پر فروخت کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی نے ایسے وقت میں یہ اقدام کیا ہے جب ’وہ خود کچھ دنوں کے مہمان ہیں۔‘

لاہور ماسٹر پلان کی منظوری اس وقت دی گئی جب وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہو چکی تھی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

سرکاری دستاویزات کے مطابق لاہور کے ماسٹر پلان کی منظوری کے لیے کچھ قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے رولز میں ترمیم بھی کی گئی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق عوامی اعتراضات کی سنوائی کے لیے ایل ڈی اے کے رولز میں ایک مہینے کے وقت کو صرف اس منظوری کے لیے کم کر کے سات دن کیا گیا ہے۔
یعنی دوسرے لفظوں میں اب بھی دیگر منصوبوں کے لیے عوامی اعتراضات کے لیے دوبارہ ایک مہینے کا وقت ہی دیا جائے گا۔
لاہور ماسٹر پلان کے حوالے سے لاہور بچاؤ کمیٹی کے سرگرم رکن ڈاکٹر اعجاز انور نے کہا کہ ’یہ دولت کا ایک خطرناک کھیل اور لاہور کو سبزے سے محروم کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔ جب پوری دنیا میں اونچی عمارتوں میں رہائشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں یہاں ابھی بھی زرعی زمینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔‘
’اس نئے ماسٹر پلان کا اگر آپ جائزہ لیں تو لاہور کی ساری فوڈ پاکٹس ختم کر دی گئی ہیں۔ شیخوپورہ اور قصور سے جو سبزی روزانہ لاہور کو سپلائی ہوتی ہے اب ان جگہوں کو نقشے میں بھورا دکھایا گیا ہے۔ ہم اس کے خلاف ہر حد تک جائیں گے اور عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔‘

ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ’سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اتنی عجلت کاہے کی تھی۔ خود اس ماسٹر پلان کے اندر کہا گیا ہے کہ ہر 10 سال بعد اس کی پڑتال ہو گی جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ یہ سب عجلت میں ہوا ہے۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

پنجاب حکومت البتہ ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ مستقبل کو مدنظر رکھے یہ کوئی عجلت میں نہیں ہوا بلکہ دو سال سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ ن لیگ کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ صرف وہ ہی ترقیاتی کام کر سکتے ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا وژن ہے کہ ہر شہری کو رہائش کی سہولت میسر ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے پہلے بھی دریائے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کیا جا رہا ہے۔
رولز میں ترمیم کے حوالےسے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ وزیراعلٰی کا اختیار ہے۔ اور بلاوجہ کی رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ ابھی بھی اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنے اعتراضات جمع کروا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس ماسٹرپلان کی پڑتال کرنے کی شق رکھی گئی ہے۔‘

کیا واقعی لاہور میں رہائشی مکانات کی کمی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک مذاق ہے اس وقت بھی لاہور کی 500 سے زائد رہائشی کالونیوں میں 50 فیصد سے کم آبادی رہائش پذیر ہے اور یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ خود ایل ڈی اے کی دستاویزات ہیں۔ ہم نے نے سارا مواد اکھٹا کر لیا ہے ہم عدالت جائیں گے۔‘

شیئر: