Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2700 ایمپلائمنٹ پروموٹرز نے ایک بھی پاکستانی کو بیرون ملک نہ بھیجا

ابراہیم انٹرپرائز کراچی نے ایک سال میں 13 ہزار لوگوں کو بیرون ملک بھیجا (فوٹو: اے ایف پی)
بیرون ملک پاکستانی ورکرز کے لیے روزگار کے مواقع تلاش کرنے اور انھیں بھجوانے والے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی بڑی تعداد بیرون ملک کمپنیوں اور پاکستان میں عوامی اعتماد سے محروم ہو کر اپنا روزگار ٹھپ کرنے لگ گئی ہے۔  
حکام کے مطابق اس کی بڑی وجہ کورونا کے اثرات اور ان کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں ناکامی ہے۔
سال 2022 میں مجموعی طور پر 4800 سے زائد ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے پاس بیورو آف امیگریشن کے جاری کردہ لائسنس موجود تھے جن میں سے صرف 2100 اووسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں کامیاب ہوسکے، جبکہ 2700 زائد ادارے ایک بھی فرد کو بیرون ملک بھیجنے میں ناکام رہے۔ ان میں سے صرف ایک ادارہ ایسا تھا جو ایک سال میں دس ہزار سے زائد لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے میں کامیاب رہا۔
اعدادوشمار کے مطابق بشیر ابراہیم انٹرپرائز کراچی نے ایک سال میں 13000 لوگوں کو بیرون ملک بھیجا۔ دوسرے نمر پر آنے والا ادارہ آریان برادرز اوورسیز کراچی پہلے نمبر سے تقریبا 50 فیصد پیچھے رہا اور ایک سال میں 6679 ورکرز کوبیرون ملک بھجوانے میں کامیاب رہا۔
ساونڈ لائنرز ریکروٹنگ راولپنڈی 5275 ورکرز کو بھجوا کر تیسرے نمبر پر رہا۔ اس کے علاوہ تین ادارے چار ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان جبکہ تین اور ادارے بھی تین ہزار سے چار ہزار ہی کے درمیان ورکرز کو بیرون ملک بھجوا سکے۔
15 اداروں نے دو سے تین ہزار کے درمیان جبکہ 78 ادارے ایک سے دو ہزار کے درمیان، جبکہ 190 ادارے 500 سے ایک ہزار کے درمیان  لوگوں کو بیرون ملک روزگار دلوا سکے۔
سب سے بڑی تعداد نسبتاً ناکام اداروں کی ہے جو ایک سے لے کر 500 تک افراد کو بیرون ملک بھجوا سکے۔
اس حوالے سے بیورو آف امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کا بینادی کام لوگوں کے لیے بیرون ملک روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور ان ممالک میں کمپنیوں سے روابط قائم کرکے ویزے حاصل کرنا ہے جبکہ حکومتی سطح پر انہیں معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
سال 2022 میں اگرچہ 1971 سے اب تک تیسری بڑی تعداد میں لوگوں کو بیرون ملک بھجوایا گیا، لیکن اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی بڑی تعداد عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو انہیں بیرون ملک سے ویزے ملے ہی نہیں نہیں یا پھر وہ دیگر اداروں کو ویزے بیچنے پر مجبور ہوئے۔
اسی وجہ سے گزشتہ ایک سال میں 4812 میں سے 729 اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز نے اپنے لائسنس سرنڈر کیے، جبکہ 171 لائسنس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب قرارپائے اور منسوخ کر دیے گئے۔ 1431 لائسنس اپنی مدت پوری ہونے کے بعد تجدید کے لیے نہیں آئے۔ جس کے باعث 4812 میں سے 2314 اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز مارکیٹ میں موجود رہ گئے ہیں۔

حکام کے مطابق اووسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی تعداد میں کمی سے مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان بڑھے گا (فوٹو: اے ایف پی)

حکام کے مطابق اووسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان بڑھے گا جس کا مثبت اثرات اگلے سال دیکھنے کو ملیں گے۔  
دوسری جانب اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کورونا کے دوران جن لوگوں کے روابط ختم ہوئے ان کی بحالی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیرون ملک بھی بہت سی کمپنیاں اور ادارے جن سے ویزے حاصل کیے جا رہے تھے وہ یا تو بند ہو گئی ہیں یا پھر ان کے کام کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے۔
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شاہ زیب خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگرچہ مجموعی طور پر ملکی سطح پر بیرون ملک روزگار کے حصول کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بڑی تعداد میں اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کا کاروبار بھی ٹھپ ہوا ہے۔
’ہماری کوشش ہے کہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد پروموٹرز کے لائسنسوں کی تجدید ہو اور انہیں ایک بار پھر بیرون ملک روزگار کے مواقع حاصل کرنے کا مشن سونپا جائے جس کا فائدہ نہ صرف ان پروموٹرز کو ہوگا بلکہ ملک اور عوام بھی مستفید ہوں گے۔

شیئر: