Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی سوشل میڈیا ورکرز سے اسرائیلی رویہ پر تنقید

ایسی بہت سی پوسٹس قارئین کو اسرائیل کے خلاف حملوں کی ترغیب دیتی ہیں۔ فوٹو انسٹاگرام
فلسطینی سوشل میڈیا ورکرز اورصارفین کے خلاف تشدد  بھڑکانے کے الزام میں اسرائیلی سیکیورٹی حکام سخت کریک ڈاؤن کر رہے ہیں،یہ دعویٰ فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہےکہ 2022 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر فیس بک پر دکھائے جانیوالے اسرائیلی حکام کے فلسطینیوں پر ظلم و ستم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینی سینٹر فار پریزنرز سٹڈیز کے مطابق سوشل میڈیا پر دکھائی جانیوالی سرگرمیوں کی وجہ سے سال بھر میں تقریباً 410 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔
سنٹر کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چندبر سوں کے دوران آن لائن رائے کا اظہار کرنے پر گرفتار فلسطینیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
2018 میں یہ تعداد 45 تھی جو 2019 میں 184، 2020 میں 220 اور 2021 میں 390 تک پہنچ گئی جب اسی سال مئی میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کے دوران گرفتاریوں میں اضافہ ہوا۔
فلسطینی ایسوسی ایشن برائے انسانی حقوق شاہد نے دعویٰ کیا  ہےکہ اسرائیلی حکام کی جانب سے  کریک ڈاؤن انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ سال فلسطینیوں کے آزادی اظہار کو سلب کرنے کے لیے اسرائیل نے ان پر ظلم و ستم میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور یہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جابرانہ پالیسیوں میں ایک خطرناک پیش رفت ہے۔

 اپریل 2022 میں کچھ پوسٹس کے مواد کی وجہ سے طلب کیا گیا۔ فوٹو عرب نیوز

انسانی حقوق ایسوسی ایشن نے یہ بھی متنبہ کیا کہ ایسی پالیسیوں کو جاری رکھنے سے ممکنہ طور پرایک پرتشدد ماحول  میں اضافہ ہوگا جو انسانی حقوق کی بے توقیری میں نمایاں اضافہ  ہے۔
فلسطینی سوشل میڈیا کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق ہے کی کہ اس وقت 2 ملین سے زیادہ فلسطینی فیس بک استعمال کرتے ہیں، ان میں سے نصف تعداد انسٹاگرام، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ اور ٹیلی گرام سروسز کی سہولیات سے مستفید ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے فیس بک اور انسٹاگرام کے ذمہ دار میٹا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ فلسطینیوں کے اکاؤنٹس محدود کرے جس پر وہ اسرائیل کے خلاف تشدد پر اکسانے کا الزام لگاتے ہیں۔
دوسری طف میٹا نے سینکڑوں فلسطینی اکاؤنٹس کو محدود  اور بلاک کر دیا ہےجس سے بہت سے فلسطینی کارکنوں کو ٹک ٹاک اور ٹیلی گرام کا رخ کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔

سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر اسرائیل کی سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

اسرائیل مبینہ طور پر ایک قانون نافذ کرنے کا ارادہ  رکھتا ہے جس کے مطابق وہ سوشل میڈیا پر ایسے مواد کو روکے گا جسے وہ سمجھتا ہے کہ اسرائیلیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مغربی کنارے میں اپریل 2022 میں شروع ہونے والے تشدد میں حالیہ اضافے کے بعد سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر اسرائیل کی سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس نے اس وقت سے بہت سی ایسی  پوسٹس دیکھی ہیں جو قارئین کو اسرائیل کے خلاف حملوں کی ترغیب دیتی ہیں۔
اسرائیلی سیکیورٹی سروسز نے سوشل میڈیا  پر فلسطینی پوسٹس کو ٹریک کرنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹس قائم کیے ہیں جو کسی ایسے مواد کی تلاش میں ہیں جو تشدد یا مسلح گروپ کی رکنیت کی حمایت کا اشارہ کرتا ہو۔

اس وقت 2 ملین سے زیادہ فلسطینی فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو  عرب نیوز

نابلس میں رہنے والے وکیل عامر حمدان نے بتایا ہے کہ اپریل 2022 میں فیس بک کی کچھ پوسٹس کے مواد کی وجہ سے انہیں طلب کیا گیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ وہ غزہ کے ساتھ یکجہتی مارچ کی کال بند کریں۔
عامر حمدان نے بتایا ہے کہ مجھے صاف الفاظ میں بتایا دیا گیا ہےکہ میں ان کے ریڈار پر تھا اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میں اسرائیل کے خلاف اکسا رہا ہوں تو وہ مجھ سے اسی طرح پیش آئیں گے۔
اس کے بعد عامر حمدان نے فیس بک اور ٹِک ٹاک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنی پوسٹس کی تعداد کم کردی اوراپنی پوسٹس کو سیلف سنسر کرنا شروع کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ درپردہ  دھمکی کے بعد میں نے کسی بڑے مارچ میں شرکت نہیں کی اور سوشل میڈیا پر جو الفاظ استعمال کرتا ہوں ان میں محتاط ہو گیا ہوں۔
 

شیئر: