کمپنی کے مطابق ’ان پروازوں کا دورانیہ لگ بھگ 19 گھنٹے ہو گا۔‘
طویل دورانیے کے فضائی سفر کا انسانی صحت پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ ایک عام مسئلہ ڈی ہائیڈریشن ہے جس کی شکایات ایسے سفر میں سننے کو ملتی ہیں۔
اسی طرح طویل اور مسلسل سفر کے دوران حلق، ناک اور جلد کی خشکی کا مسئلہ بھی ہو جاتا ہے۔
انتہائی بلندی پر اڑنے والے جہاز میں سفر کے دوران خشکی کا خطرہ اس لیے بھی زیادہ ہو جاتا ہے کہ آپ کے جسم کے لیے فضا میں موجود مرطوب اجزا بہت نیچے رہ جاتے ہیں۔ یہ نمی والے اجزا زمین کے قریب کی ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔
بہت زیادہ بلندی پر موجود ہوا میں نمی کی مقدار کم ہوتی ہے۔
اس لیے ایسے سفر کے دوران آپ کو معمول سے کہیں زیادہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
طویل اور مسلسل فضائی سفر کے دوران کانوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور نیند بھی پوری نہیں ہوتی کیونکہ جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ جب بدلتا ہے تو اس کا ہمارے جسم میں موجود ہوا پر بھی اثر پڑتا ہے۔
جب جہاز زیادہ اوپر جاتا ہے تو ہوا کا دباؤ کم جبکہ اس کے برعکس حالت میں زیادہ ہو جاتا ہے۔
اس صورت میں کانوں اور سر میں درد کے علاوہ ہاضمے کے نظام میں بھی خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے سفر کے دوران آپ معمول سے زیادہ اونگھتے رہیں کیونکہ بہت زیادہ بلندی پر جسم آکسیجن کی مطلوبہ مقدار جذب کرنے میں مشکل کا شکار رہتا ہے۔
طبی جریدے ’سائنس الرٹ‘ کے مطابق طویل فضائی سفرمیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایسے سفر کے دوران آپ بغیر کہیں ٹھہرے مختلف ٹائم زونز عبور کر رہے ہیں۔
تاہم ابھی اس بارے میں تحقیق اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے کہ آیا ایسے طویل فضائی سفر کے انسانی جسم پر مزید کیا کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔