Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپٹی کمشنر حب نے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے سیاسی کارکن کو تھپڑ مار دیا

بلوچستان کے ضلع حب میں ڈپٹی کمشنر نے اپنے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے سیاسی کارکن کو تھپڑ ماردیا۔
اس واقعے کے خلاف مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔ حب اور لسبیلہ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بھی مختلف مقامات پر بند کردیا گیا۔
متاثرہ شخص ارشاد پارس کا تعلق سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ’جام گروپ‘ سے بتایا جاتا ہے جو جام گروپ اور نیشنل پارٹی کے نومنتخب کونسلران کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کے باہر احتجاج کررہے تھے۔
واقعہ کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر حب زاہد خان دفتر کے باہر اپنے خلاف نعرے لگانے والے مظاہرین سے کہتے ہیں کہ اندر اجلاس چل رہا ہے یہ کیا بے شرمی ہے اور اس کے ساتھ ہی ارشاد پارس نامی شخص کو تھپڑ مار دیتا ہے۔ اس کے بعد تلخ کلامی شروع ہوجاتی ہے۔
ارشاد پارس نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ہم مہنگائی پر قابو پانے اور پرائس کنٹرول کمیٹی کو فعال بنانے کے لیے ڈپٹی کمشنر سے ملنے گئے تھے۔ صبح نو بجے سے ہم ڈی سی کے دفتر کے باہر انتظار کرتے رہے۔
وہاں کرسیاں موجود نہیں تھیں تو ہم نے زمین پر بیٹھ کر ایک بجے تک ڈپٹی کمشنر کا انتظار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بجے ڈپٹی کمشنر حب آئے تو ہم سے ملے بغیر سیدھا اپنے دفتر چلے گئے۔ ہمارے سابق ضلع کے سابق وائس چیئرمین اور نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر بھی موجود تھے۔ ہم مزید ایک گھنٹے تک انتظار کرتے رہے لیکن ڈپٹی کمشنر نے ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا جس پر ہم نے نعرے بازی شروع کردی۔

واقعے کے خلاف مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ نعرے بازی سن کر ڈپٹی کمشنر اپنے محافظوں کے ہمراہ باہر آئے، میں آگے موجود تھا تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا بدمعاشی لگارکھی ہے میں نے جواب دے ہی رہا تھا اس نے منہ پر تھپڑ ماردیا۔
اس کے بعد تلخ کلامی ہوگئی اور ڈپٹی کمشنر کے محافظوں نے ہمیں زدکوب کیا۔
ارشاد پارس نے الزام لگایا کہ ڈپٹی کمشنر کے محافظوں کے تشدد سے نیشنل پارٹی کے رہنما غلام رسول عرف جی آر کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
واقعہ کے بعد مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا گھیراؤ کرلیا جس کی وجہ سے ڈی سی محصور ہوکر رہ گئے۔ جام گروپ اور نیشنل پارٹی نے ڈپٹی کمشنر کے خلاف حب چوکی، بیلہ، اوتھل اور وندر میں کوئٹہ کراچی شاہراہ کو احتجاجاً بند کر دیا۔
مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر کے رویے کا نوٹس لینے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی ڈپٹی کمشنر کے رویے کی مذمت کرتے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی سی کے پاس کسی کو تھپڑ مارنے کا کوئی حق نہیں۔

’لوگ آئیں گے، مشتعل ہوں گے، شکایت کریں گے عوام یہی کرے گی۔ ضلع کے سینیئر ترین افسر کی جانب سے ایسا رد عمل ناقابل قبول اور ان کی ناپختگی ہے۔ انہوں نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے معاملے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔‘
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر حب کی جانب سے جاری کیے گئے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر حملہ کرنے والے لوگ شرپسند تھے جو کہ دفتر کے دروازوں پر لاتیں مار رہے تھے۔ جبکہ اس دوران ڈسٹرکٹ ایجوکیشن کمیٹی کا اجلاس جاری تھا جس میں افسران اور تعلیمی اداروں کے سربراہان شریک تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین سے کہا گیا کہ وہ انتظار کریں اور اجلاس ختم ہونے دیں لیکن وہ دروازے پر لات مارنے لگے۔
ڈپٹی کمشنر خود انہیں سمجھانے کے لئے باہر آئے تو اس دوران موجود ایک شخص نے نا زیبا الفاظ استعمال کئے اور صورتحال کو ناخوشگوار بنانے کی کوشش کی۔ بیان کے مطابق 'ڈپٹی کمشنر کا دفتر عوام کے مسائل کو حل کرنے کی جگہ ہے اس قسم کے واقعات سے اس دفتر کا منفی تاثر ابھرا ہے جس کی پرزور مذمت کی جاتی ہے۔‘

شیئر: