Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور: شدت پسندوں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی سمیت تین اہلکار جان سے گئے

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) سمیت تین اہلکار ہلاک جان کی بازی ہار گئے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سنیچر کو جاری ہونے والے پیغام کے مطابق ’پشاور پولیس نے آدھی رات کو شدت پسندوں کے تھانہ سربند پر حملے کو پسپا بنا دیا۔ جبکہ ان تعاقب کے دوران ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین اور دو پولیس اہلکار کانسٹیبل ارشاد اور کانسٹیبل جہانزیب ہلاک ہو گئے۔‘
ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نمازہ جنازہ پولیس لائن میں ادا کر دی گئی ہے جس میں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی، آئی جی معظم جاہ انصاری، چیف سیکریٹری عسکری قیادت سمیت پولیس افسران اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’آدھی رات کو شدت پسندوں نے سربند پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔ یہ حملہ کافی منظم اور مختلف اطراف سے کیا گیا تھا۔ حملے میں مختلف قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔ پشاور پولیس نے انتہائی کامیابی سے حملے کو پسپا کیا۔‘
’تھانے پر حملے میں کسی قسم کا جانی نقصان برداشت نہیں کرنا پڑا اور اس کا کامیابی سے دفاع کیا۔ بدقسمتی سے جب ہمیں حملے کی اطلاع ملی تو تمام اطراف سے ٹیمیں تھانے کو کمک پہنچانے کے لیے روانہ ہوئیں۔ ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین نے نہائیت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کا تعاقب کیا اور ان کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کی۔ مقابلے کے دوران غالباً سنائپر شاٹ سے ڈی ایس پی سردار حسین اور پشاور پولیس کے دو جوان ارشاد اور جہانزیب ہلاک ہو گئے۔‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی پشاور میں تھانہ سربند پر شدت پسندوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر داخلہ نے کہا وفاق کو صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلسل بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال پرسخت تشویش ہے۔ حالیہ واقعے سے لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے بنوں سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔
واضح رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پشاور میں پہلی مرتبہ سنائپر ہتھیار کے ذریعے پولیس پر حملہ کیا گیا: آئی جی پولیس
انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے پشاور میں میڈیا کو بتایا کہ ’بنوں، لکی مروت اور ڈی آئی خان میں سنائپر ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن پشاور میں پہلی مرتبہ اس ہتھیار کے ذریعے پولیس پر حملہ کیا گیا۔‘

بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’وفاقی وزیر داخلہ تنقید کے بجائے فنڈز دیں تو ہم سکیورٹی خود سنبھال لیں گے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

آئی جی کا کہنا تھا کہ ’تھرمل سائٹس، نائٹ ویژن ڈرون ٹیکنالوجی کے لیے صوبائی حکومت نے خریداری کی منظوری دی ہے۔ رقم جاری ہوتے ہی جدید ہتھیار خرید لیے جائیں گے۔‘
وزیر داخلہ تنقید کے بجائے فنڈز دیں تو ہم سکیورٹی خود سنبھال لیں گے: بیرسٹر سیف
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے  ہوئے کہا کہ ’دہشت گردوں کے پاس نیٹو کا جدید اسلحہ موجود ہے جو افغانستان میں امریکی فوجی چھوڑ گئے تھے۔‘ 
’وزیراعلٰی محمود خان نے سکیورٹی کے لیے پانچ ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے جس میں ابھی تک ایک ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔‘
’خیبرپختونخوا پولیس کے پاس جدید اسلحہ نہیں ہے جبکہ دہشت گرد گوریلا جنگ کی بھرپور تیاری کرچکے ہیں۔‘
ترجمان صوبائی حکومت کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے بہت کوشش کی کہ مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل ہو مگر اب جنگ شروع ہوچکی ہے، بہت جلد تمام شرپسندوں کا صفایا کر دیا جائے گا۔‘
’وفاقی حکومت نے صوبے کے فنڈز روکے ہوئے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ تنقید کے بجائے فنڈز دیں تو ہم سکیورٹی خود سنبھال لیں گے۔‘

شیئر: