Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علیرضا اکبری کی پھانسی، ’برطانیہ ایرانی عملے کو ملک بدر کرے‘

برطانیہ نے ایران سے علیرضا اکبری کی سزا روکنے کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی شہریت رکھنے والے ایرانی نژاد شہری کو تہران میں پھانسی دیے جانے کے بعد ان کے رشتہ دار نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے سفارتی عملے کو ملک بدر کیا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق علیرضا اکبری، جو ایران کے نائب وزیر دفاع بھی رہے پر برطانیہ کے لیے جاسوسی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
رشتہ دار کا کہنا تھا کہ علیرضا اکبری پر 3500 گھنٹے بدترین تشدد کیا گیا جس کے بعد اُن کے اعترافِ جرم پر سنیچر کو انہیں پھانسی دی گئی۔
61 سالہ علیرضا اکبری نے 1997 اور 2005 کے درمیان صدر محمد خاتمی کے دور میں بطور اصلاح کار خدمات بھی انجام دی تھیں۔
اکبری 2008 میں ایران سے اس وقت برطانیہ منتقل ہو گئے تھے جب نئی قائم ہونے والی محمود احمدی نژاد کی سخت گیر حکومت کی جانب سے انہیں تنگ کیا گیا۔ 2009 میں ایران جانے پر علیرضا اکبری کو گرفتار کیا گیا اور ان پر جاسوسی کے الزامات لگائے گئے۔
علیرضا کے بھتیجے رامن فارغانی نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ ان کے چچا کی پھانسی بغیر کسی جواب دہی کے بھولی نہیں جا سکتی۔ برطانیہ کا کم سے کم جواب اتنا تو ضرور ہونا چاہیے کہ اس کے سفارت کاروں کو ملک سے نکال دے۔

علیرضا اکبری نے ایران کے نائب وزیر دفاع کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

برطانوی حکومت کی جانب سے ایران سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ علیرضا کو سزا نہ دی جائے تاہم فائدہ نہیں ہوا۔
فارغانی کا کہنا تھا کہ ’جب میں یہ خبر دیکھی تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں، یہ بہت خوفناک بات تھی۔‘
’یہ اس (ایرانی) حکومت کی جانب سے غیرمتوقع نہیں تھا لیکن میرا خیال تھا کہ شاید وہ اپنا ارادہ تبدیل کر دے جیسا کہ اس نے نازنین زاگھری کے معاملے میں کیا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وائٹ ہال کی جانب سے مطالبے کے باوجود ایک برطانوی کو پھانسی دی گئی ہے اب کم سے کم ردعمل یہ ہونا چاہیے کہ ایرانی سفارت کاروں کو نکالا اور برطانوی کو واپس بلایا جائے۔‘
انہوں نے برطانوی حکومت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کی جانب سے اچھی کوشش کی گئی تاہم اس کا معاملہ ایک ایسی حکومت کے ساتھ ہے جس کو انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔‘

ایران میں احتجاج میں شریک ہونے والے متعدد افراد کو بھی پھانسی دی جا چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’مجھے امید ہے کہ سفارتی محاذ پر اس کے نتائج سامنے آئیں گے اور یہ معاملہ بغیر کسی جواب دہی کے ایسے ہی نہیں رہے گا۔‘
رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے سنیچر کو زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کے پراسیکیوٹر جنرل پر پابندیاں عائد کر رہی ہے اور تہران سے عارضی طور پر اپنے سفیر کو واپس بلا رہی ہے۔
تاہم برطانوی حکومت نے لندن میں ایران کے سفارت کاروں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
خیال رہے ایران میں جاری احتجاج میں شرکت والے متعدد افراد کو بھی پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔

شیئر: