Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں سابق نائب وزیر دفاع علیرضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی

علیرضا اکبری نے بتایا تھا کہ انہوں نے ’تشدد کے بعد‘ ان جرائم کا اعتراف کیا جو انہوں نے نہیں کیے (فوٹو: اے ایف پی)
ایران نے برطانیہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں سابق ایرانی نائب وزیر دفاع علیرضا اکبری کو پھانسی دے دی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایرانی عدلیہ کی میزان نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے سنیچر کو برطانوی شہریت رکھنے والے علیرضا اکبری کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔
برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے جمعے کو رات گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران کو پھانسی نہیں دینی چاہیے۔ برطانیہ نے سزائے موت کو ’سیاسی محرک‘ قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
میزان نیوز ایجسنی نے سنیچر کی صبح ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’علیرضا اکبری جنہیں بدعنوانی اور برطانوی حکومت کی انٹیلی جنس سروس کے لیے جاسوسی کر کے ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کے خلاف کارروائیوں کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، پھانسی دے دی گئی ہے۔‘
بدھ کو بی بی سی فارسی سے نشر کی گئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں علیرضا اکبری نے بتایا تھا کہ انہوں نے ’بڑے تشدد کے بعد‘ ان جرائم کا اعتراف کیا جو ان سے سرزد نہیں ہوئے تھے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو ایک ویڈیو نشر کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ علیرضا اکبری نے 2020 میں ایران کے اعلٰی جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کے قتل میں کردار ادا کیا تھا جس کا الزام اس وقت کے حکام نے اسرائیل پر لگایا تھا۔
ویڈیو میں اکبری نے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا تاہم یہ کہا تھا کہ ایک برطانوی ایجنٹ نے فخر زادہ کے بارے میں معلومات مانگی تھیں۔
بی بی سی فارسی کے ذریعے نشر کی گئی آڈیو ریکارڈنگ میں علیرضا اکبری نے کہا کہ انہوں نے تشدد کے نتیجے میں جھوٹے اعترافات کیے ہیں۔ ’تین ہزار 500 گھنٹے سے زیادہ ٹارچر، سائیکیڈیلک ادویات اور جسمانی و نفسیاتی دباؤ کے طریقوں سے انہوں نے میری صلاحیت چھین لی۔ انہوں نے مجھے پاگل پن کے دہانے پر پہنچا دیا اور مجھے ہتھیاروں کے زور پر اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر جھوٹے اعترافات کرنے پر مجبور کیا۔‘

ایران نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے درجنوں افراد کو سزائے موت سنائی ہے جن میں سے چار افراد کو پھانسی دی گئی ہے (فوٹو: روئٹرز)

ایران کا سرکاری میڈیا اکثر مشتبہ افراد کے مبینہ اعترافی بیانات نشر کرتا ہے۔
ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے جس میں برطانیہ ایک فریق ہے، کی بحال کی کوششیں رُکنے کے بعد لندن اور تہران کے تعلقات حالیہ مہینوں میں تناؤ کا شکار ہوئے ہیں۔
برطانیہ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاؤن پر بھی تنقید کرتا رہا ہے۔
برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ایک وزیر نے جمعرات کو کہا تھا کہ ’برطانیہ ایران کے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر غور کر رہا ہے لیکن وہ کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچا ہے۔‘
ایران نے ’بدامنی کے خلاف‘ کریک ڈاؤن کرتے ہوئے درجنوں افراد کو سزائے موت سنائی ہے جن میں سے چار افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔

شیئر: