Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صوبائی انتخابات کے اعلان میں تاخیر قانون کی خلاف ورزی ہے؟

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ابھی تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نگراں کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے تاہم تاحال دونوں صوبوں کے گورنرز کی جانب سے صوبوں میں عام انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کو نہیں دی گئی۔ 
اس حوالے سے الیکشن کمیشن دونوں صوبوں کے گورنز کو الیکشن کی تاریخ کے لیے خطوط لکھ چکا ہے جبکہ قبل ازیں سپیکر پنجاب اسمبلی نے بھی گورنر پنجاب کے نام الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔ 
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ حکومت 90 روز کے اندر انتخابات نہ کروانے کا پلان بنا رہی ہے اور گورنرز کی جانب سے تاریخ کا اعلان نہ کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ 
کیا گورنرز کی جانب سے تاحال تاریخ کا اعلان نہ ہونا قانون کی خلاف ورزی ہے؟ اور الیکشن میں تاخیر کے خدشے کو مبصرین کیسے دیکھ رہے ہیں یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے الیکشن پر نظر رکھنے والے غیرسرکاری مبصرین سے گفتگو کی ہے۔ 

’گورنرز کی جانب سے انتخابات کے اعلان کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں‘

جمہوریت اور شفاف انتخابات کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے کا کہنا ہے کہ ’اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد گورنر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے کیے کوئی ڈیڈ لائن موجود نہیں۔ 48 گھنٹوں کے اندر گورنر کی جانب سے تاریخ دینے کی پابندی نہیں ہے۔ آئین اور رولز میں صرف اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 90 روز میں انتخابات کروانا لازمی ہے۔‘ 
احمد بلال محبوب کے مطابق ’یہ ایک روایت ضرور رہی ہے کہ عمومی طور پر نگراں وزیراعلٰی کے حلف اٹھانے کے بعد ہی گورنر فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دے دیتے ہیں۔‘ 
غیرسرکاری تنظیم پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ سرور باری بھی احمد بلال محبوب سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

پنجاب کے کچھ روز بعد خیبرپختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ گورنر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے کوئی ٹائم فریم موجود نہیں صرف الیکشن کمیشن 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کروانے کا پابند ہے تاہم یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت انتخابات میں تاخیر کرنا چاہتی ہے اور حکومت کے اس مقصد میں کوئی رکاوٹ پڑتی بھی نظر نہیں آ رہی۔ 
انہوں نے کہا کہ ’سندھ کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات، عدالتی احکامات کے باوجود بھی الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کروا سکا۔ اس سے بظاہر الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔‘ 

کیا قانون میں انتخابات میں تاخیر کی گنجائش موجود ہے؟ 

اس بارے میں پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو 90 روز کے اندر انتخابات کروانے ہیں اور الیکشن کا شیڈول تقریباً 50 روز کا ہوتا ہے اس لیے 40 دن میں انتخابات کی تیاریوں کا وقت الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بظاہر الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ انتخابات میں تاخیر کریں نہ ہی حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز موجود ہے۔ اگر ایسا کرنا ہے تو پھر حکومت کو کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور اس کا اب وقت گزر چکا ہے۔‘ 

سرور باری کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگراں وزیراعلٰی ایک پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ (فوٹو: گورنر ہاؤس)

احمد بلال محبوب کے مطابق ’الیکشن کمیشن 90 روز میں صرف اس صورت میں توسیع کر سکتا ہے جب ملک میں کوئی ہنگامی صورتحال بن جائے۔ 2008 کے عام انتخابات میں جب بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے الیکشن کے انعقاد کو کچھ ہفتے دیر سے منعقد کیا گیا۔‘
سرور باری کہتے ہیں کہ ’قانون میں سوائے ایمرجنسی کے کوئی گنجائش موجود نہیں کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں وزیراعلٰی پنجاب کے لیے جو نام منتخب کیا گیا ہے بطور مبصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک پارٹی کو اس نام پر تحفظات ہیں اور نگراں وزیراعلٰی کی ایک خاص سیاسی جماعت کی طرف واضح جھکاؤ موجود ہے اس لیے الیکشن کمیشن کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’انتخابات کی تاخیر میں قانونی طور پر کوئی زیادہ رکاوٹ تو موجود نہیں لیکن حالیہ کچھ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات الیکشن کمیشن کی جانبداری کا تاثر ضرور دیتے ہیں۔‘

شیئر: