Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چند روز قبل دہشتگرد حملے میں بچ جانے والے پولیس افسر دھماکے کا شکار

آئی جی معظم جاہ انصاری نے کہا تھا کہ یہ خودکش حملہ تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے چھٹے بڑے شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کو تیسرا روز ہے لیکن اس میں ہونے والے جانی نقصان اور پیاروں کے ذکر نے ٹائم لائنز کو اب بھی افسردہ کر رکھا ہے۔
دھماکے اور اس میں ہونے والے نقصان پر تبصروں میں کہیں غم واضح ہے تو کوئی بےبسی کے نوحے لکھ رہا ہے۔ کہیں حکمرانوں سے گلہ اور کہیں دن نہ بدلنے کا شکوہ ہے، کوئی جواں اموات کے پیاروں پر اثرات کو موضوع بنائے ہوئے ہے تو کوئی حملہ آوروں اور حالات یہاں تک پہنچانے کے ذمہ داروں کو کوس رہا ہے۔
اسی دوران کچھ ٹویپس نے اپنے ہم جولیوں، ہم جماعتوں اور ان کی یادوں کا ذکر کیا تو اسے دیکھنے اور پڑنے والے درد اور کرب کو محسوب کیے بغیر نہ رہ سکے۔
محمد داود خان نے لکھا کہ ’ہمارے گاؤں کے ابن امین اور افتخار پشاور میں ڈیوٹی پر تھے۔ پشاور دھماکے میں میں تین دوست کھوئے ہیں۔‘
عرفان اللہ جان نے بھی اپنے گاؤں کے ایک پولیس اہلکار کی تصویر کی جو اب ان کے  ساتھ نہیں رہے۔

اہلخانہ اور احباب ہی نہیں دھماکے کے متاثرین کا علاج کرنے والا عملہ بھی صورتحال دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا تو اس کا اقرار بھی کیا۔
ڈاکٹر طاہر خان نے اپنے زیرعلاج رہنے والے ایک زخمی کا تذکرہ کیا تو لکھا کہ ’انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کر کے ہم کسی معجزہ کے منتظر تھے۔ ان کے وہ آخری لمحات جب وہ زندگی کے لیے پکار رہے تھے بھلائے نہیں جا سکتے۔‘
زخمی پولیس افسر کو مہیا کیے گئے علاج کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’میں اس فرد کے لیے روتا رہا۔‘

صحافی ایاز گل نے جانبر نہ ہونے والے پولیس افسر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ میرے کزن تھے 42 برس کے تھے۔ ذہین، بہادر اور دیانتدار افسر تھے انہوں نے پسماندگان میں پانچ بچے چھوڑے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’چند روز قبل بھی پشاور کے قریب ان کے پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔‘

پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ متعدد غیرملکی ٹوئٹر صارفین نے دھماکہ میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا تو جانے والوں اور متعلقین کو یاد کرنے کا اقرار بھی کیا۔

اتنے بڑے واقعہ کے باوجود کچھ لوگوں کے رویوں سے صارفین کو بے حسی کا شائبہ ہوا تو یہ تذکرہ بھی ٹائم لائنز کا حصہ بنا۔

بدھ کی صبح لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان نے بتایا ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والی کی تعداد 101 ہو گئی ہے۔ اس وقت بھی 49 زخمی زیرعلاج ہیں، ان میں سے سات آئی سی یو میں داخل ہیں۔
قبل ازیں خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے منگل کو دھماکے کی نوعیت کا بتایا تو اسے ’خود کش حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہونا چاہیے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دھماکے میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ 97 پولیس افسران و اہلکار اور تین شہری مارے گئے ہیں۔

شیئر: