Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امپورٹڈ مہنگائی کا نیا طوفان، ’اب ایک نوکری میں گزارا ممکن نہیں‘

مہنگائی کے باعث عریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران یعنی زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک کمی کے سبب روپیہ شدید گراؤٹ کا شکار ہے اور درآمدی اشیا منگانے کے لیے ایل سیز نہیں کھل رہے جس کی وجہ سے ملک میں امپورٹڈ مہنگائی کا نیا طوفان آیا ہوا ہے۔
پاکستانی کرنسی کے قدر میں تاریخی کمی کے سبب درآمدی اشیا خصوصاً اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مہنگائی کے باعث عریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔
 کراچی کے رہائشی محمد شعیب کا کہنا ہے کہ رواں ماہ ایک ہفتے کے دوران انہوں نے مارکیٹ سے دو مرتبہ دال اور تیل کی خریداری کی۔ 
’ایک ہفتے کے اندر قیمتوں میں 25 سے 42 روپے فی کلو کا اضافہ ہوگیا تھا جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اب ایک نوکری میں گزارا ممکن نہیں ہے۔‘
محمد شعیب کراچی کے صنعتی علاقے سائیٹ میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں مشین آپریٹر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے کہ زندگی تھم سی گئی ہے۔
’تنخواہوں میں اضافہ ہو نہیں رہا اور ہر ہفتے جب بازار خریداری کے لیے جاتے ہیں تو اشیائے خورونوش کا ایک نیا ریٹ ملتا ہے۔ دکاندار کہتے ہیں امپورٹ پر پابندی ہے، مال پیچھے سے مہنگا مل رہا ہے تو ہم بھی مجبور ہیں۔‘
پاکستان میں لگژری آئٹمز کی درآمد پر عائد پابندی کے بعد بینکوں نے بنیادی ضرورت کی اشیا بشمول دالیں، گندم، خوردنی تیل اور میڈیکل کی اشیا کی درآمد کے لیے بھی ایل سیز کھولنا بند کردیے تھے۔
تاہم اب لگژری آئٹمز کی درآمد پر عائد پابندی تو ختم کردی گئی ہے لیکن اس کے باوجود امپورٹرز شکایت کررہے ہیں کہ بندرگاہوں پر موجود کنٹیینرز اب بھی کلیئر نہیں ہورہے ہیں۔

مرکزی بینک نے بینکوں کو اجازت دی کہ وہ اشیائے ضرورت کی درآمد کے لیے ایل سیز کھول سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق بندرگاہ پر کلیئرنس کے انتظار میں کھڑے کنٹینرز میں بنیادی ضرورت کی اشیا دالیں، گندم، خوردنی تیل اور میڈیکل سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے گی۔

حکومت کی جانب سے کن اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی؟

حکومت پاکستان نے گاڑیوں، موبائل فونز،  فروزن گوشت، پھل، کارپٹس، ٹشو پیپر، فرنیچر، میک اپ کا سامان، جیلی، شیونگ کے سامان، میٹرس، سلیپنگ بیگز، ہیٹر، کچن کے سامان، جوسز، آئس کریم، سینیٹری آئٹمز، چمڑے سے بنی اشیا سمیت دیگر کئی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ تاہم ان احکامات کے بعد ملک میں امپورٹ کی جانے والی تقریبا تمام اشیا بشمول اشیائے خورونوش کی ایل سیز روک دی گئی تھی۔
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پہلے پولٹری کی صنعت سے وابستہ افراد نے احتجاج شروع کیا، جس کے بعد سبزی اور فروٹ کے امپورٹرز سراپا احتجاج رہے کہ ان کے کنٹینرز بندر گاہوں پر کلئیرنس کے منتظر ہیں اور انہیں بھاری نقصان کا سامنا ہے۔ 

ایل سی کیا ہے؟

لیٹر آف کریڈٹ یا ایل سی درآمد میں استعمال ہونے والا ایک اہم دستاویز ہے جو بینک جاری کرتا ہے۔ کوئی فرد یا کمپنی بیرون ملک سے کوئی چیز درآمد کرنا چاہتی ہے تو اسے بیرون ملک سے اشیا پاکستان بھیجنے والی کمپنی ان چیزوں کی ادائیگی کی ضمانت مانگتی ہے اس ضمانت کو لیٹر آف کریڈٹ کہتے ہیں۔

پابندی کی وجوہات کیا تھی؟

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ان اشیا کی درآمد پر پابندی سے درآمدی بل میں 6 ارب ڈالر کی کمی ہوگی۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ احکامات کے تحت بینکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ مخصوص اشیا کی درآمد کے لیے ایل سیز کھولنے سے پہلے سٹیٹ بینک کے فارن ایکسچینج آپریشن ڈیپارٹمنٹ سے اجازت لیں۔ اس شرط کے بعد ملک میں ایل سیز کھلنے کا عمل کم ہوگیا اور امپورٹرز ایل سی نہ کھلنے کی شکایت کرتے نظر آئے۔

پاکستانی کرنسی کے قدر میں تاریخی کمی کے سبب درآمدی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم گزشتہ ماہ کے آخر میں تاجر اور صنعت کاروں کے مطالبے پر مرکزی بینک نے نئے احکامات جاری کیے اور بینکوں کو اجازت دی کہ وہ اشیائے ضرورت کی درآمد کے لیے ایل سیز کھول سکتے ہیں۔
سٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق 2 جنوری 2023 سے ہوگا۔ لیکن امپورٹر اب بھی شکایت کررہے ہیں کہ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے ہیں۔
سیریل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین مزمل چیپل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں درآمدی اشیا کے حوالے سے اب بھی پالیسی کلیئر نہیں ہے۔
گورنر سٹیٹ بینک سمیت دیگر ذمہ داران نے کمرشل بینکوں کو ہدایت دی تھی کہ 100 فیصد ادائیگی پر ضروریات زندگی کی اشیا کی ایل سیز کھول دی جائیں۔
لیکن ان احکامات کے باوجود بھی ایل سیز نہیں کھل رہی ہے جس کی وجہ سے امپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

امپورٹ پر پابندی سے عوام کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟

مزمل چیپل کا کہنا تھا کہ ساڑھے چھ ہزار سے زائد صرف دالوں کے کنٹینرز پورٹ پر موجود تھے۔ اس کے علاوہ خوردنی تیل، میڈیکل کے سامان اور دوسری اشیا کے کنٹیرز پورٹ پر موجود ہیں اور کلئیر نہیں ہوسکے۔ یہ  تمام اشیا عام آدمی کے ضرورت کی ہے۔

کراچی کے رہائشی محمد شعیب کا کہنا ہے کہ نوکری پیشہ افراد کے لیے گزارا اب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا فرق بڑھ رہا ہے جس کا فائدہ منافع خور اٹھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملک میں گندم کی کمی تو سب کے سامنے ہے لیکن دیگر اشیا کی کمی کا ابھی تک ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔ ’اگر صورتحال ایسی رہی تو آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجائے گا۔‘
تاجر رہنما عتیق میر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایک عجیب سا نظام نظر آرہا ہے۔ ’ہر ایک اپنے حساب سے نظام چلانا چاہتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں چھوٹا تاجر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ امپورٹ پر پابندی کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہورہی ہے اور خریدار شکایت کررہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ضروری ہے کہ تاجروں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
’ملک میں تاجر کاروبار کرے گا تو ہی بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ اگر لوگ کاروبار بند کرکے بیٹھ جائیں گے تو ملک کی معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا؟‘
کراچی کے رہائشی محمد شعیب کا کہنا ہے کہ نوکری پیشہ افراد کے لیے گزارا اب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
’تین سال قبل نوکری جس اجرت پر شروع کی تھی آج بھی اسی پر کام کررہے ہیں لیکن مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔‘
ان کے مطابق گذشتہ ہفتے مسور کی دال 240 روپے کلو لی تھی جو اب 270 روپے کلو ہوگئی ہے، دال چنا 280 روپے ہوگئی ہے، دال ماش 400 روپے کلو مل رہی ہے، خوردنی تیل 520 روپے کلو سے بڑھ کر 565 روپے کلو ہوگیا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ عوام کی مشکلات کا کسی کو احساس نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک نوکری میں گزارا مشکل ہوگیا ہے اس لیے دوسری نوکری تلاش کرنے پر مجبور ہوں۔

شیئر: