Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کے لیے ازخود نوٹس،’حالات سازگار نہیں تو وجوہات بتائی جائیں‘

مقدمے کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ازخود نوٹس کیس میں 4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ مقدمے کی سماعت جاری رکھے گا۔ 
پیر کو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو وجوہات بتائی جائیں۔‘
سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے پیر کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات کی تاریخ دینے میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے کرنا تھی۔
ساڑھے گیارہ بجے کمرہ عدالت میں وکلا، سیاسی رہنما اور میڈیا منتظر تھا کہ اطلاع آئی کہ سماعت 12 بجے ہوگی۔ بعد ازاں سماعت ساڑھے بارہ پھر ایک بجے تک انتظار ہوتا رہا۔  
سوا بارہ بجے عدالتی عملے نے اطلاع دی کہ 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا حکم نامہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے۔
اس حکم نامے میں چار ججوں کے نوٹ موجود تھے جنھوں نے از خود نوٹس لینے سمیت بینچ کی تشکیل اور بینچ میں شامل کچھ ججوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جس کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا گیا کہ نو رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا ہے۔  
اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اب نیا بینچ بنے گا تو سماعت ہوگی اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق اگلے روز ہی سماعت کی توقع تھی کہ اچانک معلوم ہوا کہ پانچ رکنی بینچ نے کمرہ عدالت نمبر ایک میں از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع کر دی ہے۔ 

بینچ ٹوٹ گیا

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ ’چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے۔ عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا۔ آئین کی تشریح کے لیےعدالت سماعت جاری رکھے گی۔ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے۔ کل ساڑھے نو  بجے سماعت شروع کر کے ختم کرنےکی کوشش کریں گے۔‘
نئے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جب تک حکم نامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکم نامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا۔ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔‘

کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا: علی ظفر 

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ’دونوں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کے  وکیل علی ظفر دلائل کا  آغاز کریں۔ آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ ’آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکو جسٹیفائی کرے (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت کے حکم پر سپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی۔ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی۔‘
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’گورنر کے انکار پر 48 گھنٹے میں اسمبلی ازخود تحلیل ہوگئی۔ کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا۔ پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟ علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ ’آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکو جسٹیفائی کرے۔ کیا کوئی انتخابات میں تاخیرکرسکتا ہے؟‘
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے۔ گورنر یا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنےکا حکم دے سکتی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا۔ کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟‘
جس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔ وکیل اظہر صدیق نےکہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا۔  
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ’کیا لاہور ہائی کورٹ نے اتنے لمبے التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔‘
وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التوا دیا گیا۔ 

صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے: جسٹس منصور 

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔ 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی۔ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے۔ آٹھ فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنےکا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسارکیا کہ ’کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟‘ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے۔ ہائی کورٹ نےگورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینےکا کہا۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں۔ اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔‘
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ ’انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتا، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جا رہی ہے۔ صدر نے تاریخ مقرر کرنےکے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ’کیا صدر سےکسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟‘ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ’بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے، اگرعدالت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ دے گا تو اسے حکم جاری کرے گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے۔ باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتا دیں۔ ‘

قانونی نکتہ طے کرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں: چیف جسٹس 

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ’کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟‘ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے۔ گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے۔ گورنر کے پی نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے۔ انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں تین  آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ 
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ’پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طے کرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ ’دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔‘ جسٹس منصور نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟‘ وکیل علی ظفر نےکہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہوجائے، دوسرا فریق بتادے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے۔ جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔‘

اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو وجوہات بتائی جائیں: چیف جسٹس 

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’الیکشن کی تاریخ آئے تو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتے ہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے واضح کیا کہ ’امن وامان کا معاملہ گورنر کا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے۔ کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟‘
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کے پی میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پرعملدرآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔‘
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقررکی گئی ہے۔ 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے، صرف اعلان نہیں۔‘
انہوں نے مقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے ذمہ انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے۔ ’تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔‘

کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں: اٹارنی جنرل 

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کا پابند ہوتا ہے یا تاخیر کرسکتا ہے؟‘ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’آئین میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ترکیہ میں زلزلہ کے باوجود انتخابات بروقت ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے دن کیا ہوجائے وہ اُس وقت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے ہی خدشات کی بنیاد پر پولنگ ملتوی نہیں ہوسکتی۔ ‘
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سےکیا گیا ہو۔ پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق 52 دن درکار ہوتے ہیں۔ کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں۔
سپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’کل (منگل کو) سپریم کورٹ بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدور کو بھی سنیں گے‘۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی۔  

23 فروری کا حکم نامہ  

 عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے 23 فروری کی سماعت کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔‘
حکم نامے میں چار ججوں نے الگ الگ نوٹ لکھے۔ جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور  اور  جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔ 
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بینچ کی ازسرنو  تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔ چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطےکیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو  بھجوایا جائے۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا ہےکہ دو سینیئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔ 

شیئر: