Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمان پارک میں غلیلوں سے مزاحمت کرنے والے کارکن کون تھے؟

رات بھر پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں (فوٹو: سکرین شاٹ)
لاہور میں زمان پارک گزشتہ روز میدان جنگ بنا رہا، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے لیے وارنٹ گرفتاری لے کر اسلام اباد پولیس جب زمان پارک کے قریب پہنچی تو کارکنوں کے ساتھ جھڑپ شروع ہوئی۔ 
وہاں پر تعینات پنجاب پولیس نے لاٹھی چارج اور انسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ متعدد کارکن گرفتار بھی کیے گئے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جس کی وجہ سے ڈی آئی جی اسلام اباد سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ 
واٹر کینن اور انسو گیس کی مدد سے پولیس زمان پارک کے احاطے میں داخل ہوئی تھی مگر عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر اور باہر موجود کارکنوں کی بھرپور مزاحمت اور کامیاب حکمت عملی کے باعث پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ 10 گھنٹے سے زائد کشیدگی برقرار رہی اور بالاخر رات کو پولیس واپس جانا پڑا۔

کیا زمان پارک کے باہر احتجاجی مظاہرین مقامی ہیں؟

اردو نیوز لاہور کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق کوریج کے دوران عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے ارگرد زیادہ تر کارکن غیرمقامی نظر آئے جن کا تعلق خیبرپختونخوا یا گلگت بلتستان سے تھا ۔ 
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے زمان پارک پر شدید انسو گیس کی شیلنگ ہوئی مگر یہ کارکن بھاگے نہیں بلکہ پتھراؤ کرتے رہے اور شیل بھی اٹھا کر واپس پھینکتے رہے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا (فوٹو: ٹوئٹر، پی ٹی آئی)

’ان کے ہاتھ میں غلیلیں تھیں جن کی مدد سے وہ پولیس کا مقابلہ کرتے رہے۔‘

’کے پی کے کارکن فرنٹ لائن فورس بے‘

زمان پارک میں عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے لیے گلگت بلتستان، ملاکنڈ، پشاور اور جنوبی اضلاع کے کارکن اور قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا۔
گزشتہ روز 14 مارچ کو ہونے والی جھڑپ میں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ضیا اللہ بنگش پیش پیش رہے۔ انہوں نے  جنوبی اضلاع کے کارکنوں کی قیادت کی اور حکمت عملی کے ساتھ پولیس کو پیچھے دھکیل دیا۔
ضیا اللہ بنگش نے اردو نیوز کوبتایا کہ پولیس کی شدید شیلنگ کی وجہ سے سانس لینا محال ہو گیا تھا مگر ہم نے طے کیا ہوا تھا کہ مین گیٹ خالی نہیں چھوڑنا۔
’ہم سب نہتے تھے لیکن ہمارے اندر ہمت تھی ایک جذبہ تھا اس لیے ہم سرخرو ہوئے۔‘ 
چترال سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے وزیرزادہ بھی مزاحمتی گروپ کی قیادت کرتے رہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ چترال، گلگت اور سوات کے کارکن سب سے آگے رہے اور آخر تک ڈٹے رہے۔ 

پولیس ایک بار زمان پارک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی تاہم پھر پیچھے ہٹنا پڑا (فوٹو: سکرین شاٹ)

انہوں نے بتایا کہ جب بہت زیادہ شیلنگ ہوئی تو زمان پارک کے سامنے کارکنوں کی تعداد کم رہ گئی تھی تب ہم نے گیٹ کی حفاظت کی ذمہ داری لی اور پولیس کو پیچھے دھکیلا۔
انصاف یوتھ ونگ پشاور کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی زمان پارک میں موجود تھی جو شیلنگ کے وقت کارکن ساتھیوں کو نہ صرف ریسکیو کرتے رہے بلکہ ان کو پانی بھی پلاتے رہے۔ 
یوتھ ونگ کے رہنماؤں کے بقول پولیس نے سب سے پہلے ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا۔

کیا کے پی کی قیادت بھی موجود تھی؟

گزشتہ رات زمان پارک کے باہر خیبرپختونخوا کی قیادت میں سے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، سابق صوبائی وزیر شہرام ترکئی، عاطف خان، سابق وفاقی وزیر مراد سعید اور سابق گورنر شاہ فرمان موجود رہے ۔
پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے اردو نیوز کوبتایا کہ پوری قیادت وہاں موجود تھی، کچھ رہنما تین دن گزار کر واپس آئے ہوئے تھے اج وہ بھی زمان پارک جا رہے ہیں۔
’ہم نے حکمت عملی کے تحت کچھ کارکنوں کو واپس بلا لیا تھا اج سب کو زمان پارک بلوایا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان سے لے کر گلگت بلتستان تک قیادت اور کارکن اس وقت عمران خان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ 

پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد اب بھی زمان پارک میں موجود ہے (فوٹو: ٹوئٹر، پی ٹی آئی)

شوکت یوسفزئی کے مطابق لاہور کے مقامی کارکنوں نے اس بار جس جذبے کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ ہم تو دوسرے صوبے سے آئے ہیں مگر لاہور والوں نے اپنا حق ادا کیا وہ ڈٹے رہے اور کامیاب ہوئے۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک کی جانب سے تمام ورکرز کو وٹس ایپ کے ذریعے آڈیو پیغام میں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سب آج لاہور زمان پارک پہنچ جائیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کے گھر کے مرکزی دروازے کی حفاظت سابق وفاقی وزیر مراد سعید اور عمر ایوب نے سنبھال رکھی تھی اور گیٹ کے اوپر کھڑے ہو کر کارکنوں کو ہدایات دیتے رہے۔

شیئر: