Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے درمیان سیزفائر‘ لیکن فضا میں تناؤ برقرار

پولیس کی پسپائی کے بعد زمان پارک کو جانے والے تمام راستے کھول دیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور پولیس کے مابین بدھ کی صبح بھی جھڑپیں اور چھینا جھپٹی کے ساتھ شروع ہوئی۔ صبح کے مناظر میں پولیس پیچھے ہٹ چکی تھی اور زمان پارک کی عقبی سڑک پر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھی جبکہ مین کینال روڑ پر رینجرز اور پی ٹی آئی کارکن ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوششوں میں تھے۔
گیارہ بجے کے قریب اچانک پولیس اور رینجرز نے علاقہ خالی کرنا شروع کردیا۔
دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی ایک درخواست سماعت کے لئے مقرر ہو گئی جس میں زمان پارک کے اطراف میں پولیس آپریشن رکوانے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست فوری ہی جسٹس طارق سلیم کی عدالت میں مقرر ہوئی تو پی ٹی آئی راہنما بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔
عدالت نے آئی جی اور چیف سیکرٹری کو آدھے گھنٹے کے نوٹس پر طلب کرلیا۔ دوسری طرف عدالتی سماعت سے پہلے ہی زمان پارک سے پولیس پیچھے ہٹ چکی تھی۔ تاہم مقامی میڈیا پر پولیس نے اس کی توجیح یہ پیش کی پی ایس ایل کے میچ کے باعث علاقہ خالی کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی پیش قدمی کے وقت مال روڑ سے دھرم پورہ تک کینال روڈ بند کر دی گئی تھی۔ جس ہوٹل میں پی ایس ایل کے کھلاڑی ٹھہرائے گئے ہیں وہ بھی مال پر ہی واقع ہے۔
جب آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے تو سماعت کا آغاز ہوا۔ تو عدالت نے پوچھا کہ اس وقت زمان پارک میں کیا ہو رہا ہے آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت پولیس پی ایس ایل کے باعث پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن پولیس کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ایک عدالت حکم پر عمل درآمد کے لئے پولیس زمان پارک گئی جس پر کارکنوں نے پولیس گاڑیاں جلائی ہیں رینجرز سمیت نفری پر پیٹرول بم مارے گئے ہیں۔
گرین بیلٹ اکھاڑ دی گئی ہیں اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر عدالت وارنٹ ختم کر دیتی ہے تو وہ زمان پارک سے ساری نفری اسی وقت واپس بلا لیں گے۔ جسٹس طارق سلیم نے استفسار کیا کہ ساری باتیں چھوڑیں ہمیں بتائیں اگر اسلام آباد کی ہائی کورٹ کا حکم آنے تک آپریشن روک دیں تو آپ کیا کہیں گے؟ جس پر آئی جی نے کہا ہم تو عدالتی حکم کے پابند ہیں۔
اسی دوران تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پولیس ہمیں اس بات کی یقین دہانی بھی کروائے کہ وہ مزید مقدمات کی آڑ میں مزید کارکنوں کو گرفتار نہیں کرے گی۔

عدالتی حکم کے بعد عمران خان گیس ماسک پہنے اپنے گھر کے احاطے میں آئے اور کارکنوں سے ملے جو پولیس کا مقابلہ کر رہے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ سرکاری املاک اور پولیس پر حملے کرنے والوں کو ضرور گرفتار کیا جائے گا۔ جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ مجھے شہر میں امن چاہیے آپ کو ہم گرفتاری سے روک نہیں رہے آپ آپریشن فی الحال روک دیں۔
اس کے بعد عدالت نے اپنے تحریری حکم میں پولیس کے جمعرات کی صبح 10  بجے تک زمان پارک سے پولیس ہٹانے اور آپریشن بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔
عدالتی حکم کے بعد عمران خان گیس ماسک پہنے اپنے گھر کے احاطے میں آئے اور کارکنوں کو ملے جو پولیس کا مقابلہ کر رہے تھے۔
پولیس کی پسپائی کے بعد زمان پارک کو جانے والے تمام راستے کھول دیے گئے اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے گھر کے باہر جمع ہو گئی۔
لیکن یہ پورا علاقہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سڑک پر تین جگہ پر گاڑیاں جلی ہوئی کھڑی تھیں ٹریفک پولیس کے سرکاری موٹر سائیکل سمیت پانچ سے زائد موٹرسائیکلیں ڈھانچہ بن چکی تھی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پیٹرول بموں کی مدد سے انہیں آگ لگائی تھی۔
شام کو زمان پارک میں جشن کا ماحول تھا لیکن فضا میں آنسو گیس کی بو ابھی بھی تھی تحریک انصاف کے کارکن خوش تو تھے کہ ان کے لیڈر کی گرفتاری نہیں ہوئی لیکن چہروں پر تناؤ برقرار تھا۔
پولیس نے بدھ کی رات عدالتی حکم کے مطابق زمان پارک کے ملحقہ علاقے چھوڑ کر تھوڑی دور نفری تعینات کر دی ہے۔ اور اب لاہور ہائی کورٹ کے مزید حکم کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

شیئر: