Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کچھ کریں، نہیں تو گھر چلے جائیں،‘ صدر عارف علوی پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام

پاکستانی قوانین کے مطابق صدر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔(فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے سوشل میڈیا پر صدر عارف علوی تنقید کی زد میں ہے اور ان کے مخالفین ان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اپنے منصبی ذمہ داریوں کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرفداری کر رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے گھر زمان پارک کے باہر منگل سے جاری پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے دوران کارکنان اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان متعدد جھڑپیں دیکھنے میں آئیں جو بدھ کی دوپہر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد رکیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے کیے جانے والے آپریشن کو جمعرات کی صبح 10 بجے تک روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے سے متعلق درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔
خیال رہے اسلام آباد کی ایک عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی عدم حاضری کے سبب انہیں گرفتار کرکے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
منگل کی رات کو عمران خان کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ 18 مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہوجائیں گے۔
ان خبروں کے درمیان صدر عارف علوی کی جانب سے بھی گذشتہ روز ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے زمان پارک میں ہونے والی کارروائی کو ’انتقامی سیاست‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’میں عمران خان کی حفاظت اور وقار کے لیے اسی طرح فکرمند ہوں جیسے دیگر سیاستدانوں کے لیے ہوں۔‘
بدھ کو زمان پارک میں آپریشن سے متعلق ایک آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا اور میڈیا پر چلنا شروع ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی سینیئر رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد اور صدر عارف علوی فون پر بات کر رہے ہیں۔
اس مبینہ آڈیو ریکارڈنگ میں یاسمین راشد صدر عارف علوی کو بتا رہی ہیں کہ ’سر یہاں صورتحال بہت خراب ہوگئی ہے۔ پیٹرول بم پھینکنا شروع کردیے ہیں یہاں لوگوں نے۔‘
انہوں نے صدر عارف علوی کو کہا کہ ’اس سے پہلے کہ کوئی خون خرابہ ہوجائے میرا خیال ہے آپ کو کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو جمعرات کی صبح 10 بجے تک زمان پارک میں آپریشن معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صدر عارف علوی نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو بتایا ہوکہ ’میں بات کر چکا ہوں۔‘ جس پر خاتون پی ٹی آئی رہنما نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بات کر لیتا ہوں خان صاحب سے۔‘
صدر عارف علوی نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی تمام باتیں سننے کے بعد کہا کہ ’مجھے اسد عمر سے بھی بات کر لینے دیں۔‘ اس بات کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد نے مشورہ دیا کہ ’آپ شاہ صاحب (شاہ محمود قریشی) سے بھی بات کرلیں وہ خان صاحب کے ساتھ ہیں۔‘
پاکستان کے قوانین کے مطابق صدر کی کرسی پر براجمان شخص سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا اور یہی وجہ ہے کہ صدر عارف علوی کے ناقدین ان پر سیاسی معاملات مین دخل اندازی کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
ٹوئٹر پر فتح نامی صارف نے لکھا کہ ’سیاسی جماعتیں عدالتوں میں کیوں نہیں جا رہیں کہ صدر عارف علوی براہ راست سیاست میں ملوث ہیں؟‘
صدر عارف علوی کی ایک ٹویٹ پر سینیئر صحافی نصرت جاوید نے تبصرہ کیا کہ ’سر عارف علوی اگر آپ اتنے فکرمند ہیں تو فوراً زمان پارک کیوں نہیں جاتے اور سب کو ایک بڑے کی طرح پرسکون رہنے کی ہدایت دیتے۔‘
عمر قریشی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’صدر عارف علوی نے اس بحران میں ثالثی کروانے کی پیشکش کی ہے لیکن ان کے اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی مبینہ کال انہیں متعصب اور عمران خان کا مشیر دکھا رہی ہے۔‘
کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کو صدر عارف علوی پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ یا تو وہ کچھ کریں نہیں تو گھر چلے جائیں۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے حامی صدر عارف علوی کی کال مبینہ طور پر ریکارڈ کرنے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور صدر پاکستان سے کال ریکارڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

شیئر: