Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے سڑک پر چلتے ملزمان کو کیسے پکڑا جا رہا ہے؟

لاہور میں 2015 میں جدید سی سی ٹی وی کیمروں سے سرویلینیس کا نظام شروع ہوا۔ فوٹو: سیف سٹی اتھارٹی
لاہور میں گذشتہ سینچر کی دوپہر مناواں کے علاقے میں ایک ادھیڑ عمرشخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ سڑک پر لگے سیف سٹی کے ایک کیمرے نے اس پر اپنا فوکس لاک کر لیا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں کیمرے نے سیف سٹی ہیڈ کوارٹر میں ایمرجنسی ڈیسک کو الرٹ کیا۔ ڈیسک پر موجود سٹاف کو سکرین بتا رہی تھی کہ یہ شخص پولیس کو مطلوب ہے۔
اسی وقت مناواں کے علاقے میں گشت کرتی ہوئی ڈالفن فورس کی ٹیم کو جگہ کی نشاندہی کی گئی اور اگلے چند منٹ میں اس شخص کو پولیس نے گھیر لیا۔
لاہور پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والا شخص اے کیٹیگری کا انتہائی مطلوب اشتہاری ملزم ہے اور اس کا نام فورتھ شیڈیول میں بھی شامل ہے۔
پولیس نے قانونی وجوہات اور شناخت پریڈ کے مراحل کے باعث ابھی ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ تاہم اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ وہ کئی قتل کے مقدموں میں پولیس کو مطلوب تھا۔
ملزم کو متعلقہ تھانے کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اب تفتیش کا عمل جاری ہے۔
کچھ عرصہ قبل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں جب پی ایس ایل کا کرکٹ میچ جاری تھا تو تماشائیوں پر لگے پولیس کے کیمروں میں سے ایک نے وہاں موجود ایک شخص کو اسی طرح فوکس کیا اور وہی دوہرایا گیا۔
اس تماشائی کو اس وقت پتا چلا جب سٹیڈیم میں حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں نے انتہائی رازداری سے اس شخص کو سیٹ سے اٹھایا اور بغیر کسی شور شرابے کے وہاں سے نکال کر حراست میں لے لیا۔
وہ بھی ایک انتہائی مطلوب ملزم تھا۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ایک کیمرے نے اس کو گرفتار کروانے کا بندوبست کر دیا ہے۔
لاہور میں سال 2015 میں جب سیف سٹی اتھارٹی کے نام سے جدید سی سی ٹی وی کیمروں سے سرویلینیس کے نظام نے کام شروع کیا تو شہر کی سڑکوں پر ہزاروں کیمرے طاقتورترین انٹرنیٹ نظام سے منسلک کیے گئے اور ان میں سے کئی کیمروں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے جوڑا گیا۔
اڑھائی سو سے زائد کیمرے ایسے ہیں جن میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے چہرہ شناسی کی صلاحیت موجود ہے اور ان کیمروں کے پیچھے ڈیٹا بیس میں پنجاب بھر کے مطلوب ملزمان کی تصاویر اور ان کی معلومات موجود ہیں۔

کیمروں کے ذریعے 200 سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ فوٹو: سیف سٹی اتھارٹی

مینیجنگ ڈائریکٹر سیف سٹی اتھارٹی کامران خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اتھارٹی کے کیمروں اور ٹیکنالوجی سے پولیس کی مختلف طریقوں سے مدد کی جا رہی ہے اور سارے نظام کو مربوط کیا گیا ہے۔
’ابھی حال ہی میں ڈولفن پولیس کے ساتھ ایک لائیزون بنایا گیا ہے اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے علاوہ ریئیل ٹائم کرائم مانیٹرنگ بھی ہو رہی ہے۔ جیسے ہی کسی کیمرے میں کوئی کرائم ہوتا نظر آتا ہے تو اسی وقت قریب ترین ڈالفن سکواڈ کو موقع پر بھیجا جاتا ہے۔ کیمروں سے کریملنز کی نگرانی جاری رکھی جاتی ہے۔‘
’ابھی کل ہی ستوکتلہ کے علاقے میں ایک تین رکنی گینگ کو رنگے ہاتھوں ڈکیتی کی واردات کرتے پکڑا ہے جس میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سسٹم نے پولیس کی صلاحیت کو بہت بڑھا دیا ہے اور ابھی اس پر مزید بھی کام ہو رہا ہے۔‘
سیف سٹی کے فیس ریکیگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کرنے والے کیمروں کی مدد سے اب تک دو سو سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ڈی آئی جی کامران خان کے مطابق کیمرے اس وقت الرٹ کرتے ہیں جب ان کے پاس موجود ڈیٹا میں تصویر اور مشکوک شخص کی شباہت میں کم از کم 80 فیصد مشابہت ہوتی ہے۔

شیئر: