Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع کا آغاز

پاکستان میں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی میلے کا بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں آغاز ہو گیا ہے جس میں دنیا اور پاکستان کے مختلف حصوں سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہندو زائرین شرکت کررہے ہیں۔
جمعے کو شروع ہونے والا سالانہ اجتماع تین روز تک جاری رہے گا۔ مذہبی رسومات میں شرکت کے لیے بعض ہندو یاتری سینکڑوں کلومیٹر دور سے پیدل ہنگلاج مندر پہنچے ہیں۔
یہ مندر کراچی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کنڈملیر کے قریب ہنگول نیشنل پارک میں دریائے ہنگول کے کنارے ایک پہاڑی غار میں واقع ہے۔
ہندوؤں کے لیے یہ دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق جب بھگوان وشنو نے دیوی ستی کے جسم کے 51 ٹکڑے کیے تھے تو اس کا سر اس علاقے میں گرا تھا۔
یہاں سال بھر پاکستان بھر سے ہندو یاتری آتے ہیں۔ تاہم ہر برس موسم بہار میں ’ہنگلاج ماتا تیرتھ یاترا‘ یا ’شری ہنگلاج شیوا منڈلی‘ کے نام سے سالانہ اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں ہزاروں ہندو شرکت کے لیے آتے ہیں اور یہاں مختلف رسومات ادا کرتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔
تاہم رواں برس لسبیلہ میں مختلف مقامات پر بارش کی وجہ سے راستے بند ہیں جس کی وجہ سے یاتریوں کو پہنچنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ جو یاتری پہلے سے موجود ہیں انہیں بھی تیز بارش کی وجہ سے رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیراعلٰی بلوچستان کے سابق مشیر اقلیتی امور اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر دھنیش کمار کا کہنا ہے کہ’یہ مندر ہزاروں سال پرانا ہے اور ہندوؤں کے لیے یہ سالانہ یاترا اتنی ہی اہم ہے جتنی مسلمانوں کے لیے حج۔ اس سال بھی اس مذہبی اجتماع میں ڈیڑھ سے دو لاکھ یاتری شریک ہیں۔‘

سینیٹر دھنیش کمار کے مطابق اب بھی ہزاروں لوگ پیدل اس مندر تک آتے ہیں۔ (فوٹو: حکومت بلوچستان)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ انڈیا اور نیپال کے بعد دنیا بھر میں ہندوؤں کا تیسرا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے بھی ہندو یاتری اس میلے میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا اور کئی باقی ممالک سے بھی ہندو اس مقدس مقام کی زیارت کے لیے آنا چاہتے ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات آڑے آ رہے ہیں۔
سینیٹر دھنیش کمار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ یہاں انڈیا کے ساتھ کرتارپور راہداری کی طرح ایک ہنگلاج راہداری بنائی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت سے ہر سال لاکھوں لوگ آئیں گے۔‘
میلے کے ایک منتظم مہاراج گوپال نے بتایا کہ کوسٹل ہائی وے بننے سے پہلے لوگ یہاں عام گاڑیوں میں نہیں آ سکتے تھے تو وہ پہاڑوں، جنگلوں اور ندی نالوں سے گزر کر پیدل یا پھر جیپوں، اونٹوں اور گھوڑوں پر آتے تھے، بعض لوگ سمندر کے راستے بھی آتے تھے۔ کوسٹل ہائی وے اور سڑکیں بننے کے بعد یہاں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے اب لوگ گاڑیوں اور بسوں میں قافلوں کی صورت میں پہنچتے ہیں۔
سینیٹر دھنیش کمار کے مطابق اب بھی ہزاروں لوگ پیدل اس مندر تک آتے ہیں۔ تھر پارکر سے ہندو یاتریوں کا ایک بڑا گروپ تقریباً 700 کلومیٹر پیدل سفر کرکے میلے میں شرکت کے لیے پہنچے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اقلیتی امور خلیل جارج کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت نے اس سالانہ مذہبی اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والوں کے لیے بہترین انتظامات کیے ہیں۔ ہندو یاتریوں کو صاف پانی، بجلی، ہاسٹل، میڈیکل کیمپ، پارکنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ کروڑوں کی لاگت سے یہاں سڑکیں اور سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ 15 کروڑ روپے کی لاگت سے رہائشی سہولیات اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا کام بھی جاری ہے۔

مذہبی میلے میں دنیا اور پاکستان کے مختلف حصوں سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہندو زائرین شرکت کر رہے ہیں۔ (فوٹو: حکومت بلوچستان)

ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں ملک بھر سے یاتریوں کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ اقلیتی برادری یہاں خود کو محفوظ اور آزاد سمجھتی ہے۔ یہاں کی مقامی بلوچ آبادی اور سکھ برادری کے افراد بھی ہندو یاتریوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو مذہبی رواداری کی اعلٰی مثال ہے۔
اس مذہبی اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے ہندو زائرین اپنا پہلا پڑاؤ مندر سے کچھ فاصلے پر واقع چندر گپ نامی ایک پہاڑی مقام پر ڈالتے ہیں، جہاں دنیا کے بڑے مٹی کے آتش فشاؤں میں سے ایک واقع ہے۔ ہندوزائرین یہاں کی مٹی میں ناریل ڈال کر منتیں مانگتے ہیں۔
کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع ہنگول کے اس علاقے میں سکندر اعظم بھی قیام کر چکے ہیں، قیام پاکستان سے قبل کئی بھارتی ریاستوں کے حکمران یہاں کی یاترا کرتے رہے ہیں۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک بھی یہاں آ چکے ہیں۔ سنہ 2006 میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے 86 رکنی وفد کے ہمراہ ہنگلاج مندر کی یاترا کی تھی۔

شیئر: