Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کراس رائٹنگ‘، عہد رفتہ میں خطوط تحریر کرنے کے عجیب طریقے 

کراس رائٹنگ یا کراس شیڈنگ کا طریقہ کسی قسم کی جاسوسی کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا (فائل فوٹو: سیدتی)
گذشتہ ادوار میں رہنے والے خط میں کم سے کم کاغذ استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچانے کے لیے مختلف طریقوں پرعمل کرتے تھے۔  
اس مضمون میں عہدِ رفتہ میں رائج بعض عجیب وغریب طریقے پیش کیے جا رہے ہیں جو خط لکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ کیا آج بھی آپ ان طریقوں کو اختیار کر سکتے ہیں یا کوئی اور طریقہ ہے؟ 
لکھائی کا خفیہ طریقہ نہیں  
اگرچہ یہ طرزِ تحریر بعض افراد کے لیے حیرانی کا باعث ہو سکتا ہے تاہم ایک زمانے میں ’کراس رائٹنگ‘ کا طریقہ عام طور پر رائج تھا۔ اس طرز تحریر کو ’کراس شیڈنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ 
مذکورہ طرز تحریر میں عام طور پر لکھنے والے اپنی تحریر مکمل کرنے کے لیے صفحے کی خالی رہ جانے والی جگہوں پر بھی تحریر کیا کرتے تھے۔ 
مذکور طریقہ کسی قسم کی جاسوسی کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کے ’کورڈ ورڈز‘ لکھے جاتے تھے بلکہ یہ عام سا طریقہ تھا جس میں تحریر کنندہ کاغذ کی خالی جگہ کو بھی استعمال کرتے تھے۔ 
کراس رائٹنگ یا کراس شیڈنگ 
ویب سائٹ لینگویج ہیومینیٹیز کے مطابق 20 ویں صدی میں خانہ جنگی کے دور میں لیٹر پیڈز کی قیمت کافی بڑھ گئی تھی، علاوہ ازیں پوسٹل چارجز میں بھی کافی اضافہ ہو گیا تھا۔ 
اس وجہ سے لوگ اس بات پر مجبور ہوگئے تھے کہ وہ اپنا خط ایک ہی کاغذ پر تحریر کریں اور مکمل معلومات اسی ایک کاغذ پر فراہم کی جائیں تاکہ کم سے کم خرچ پر خط ارسال کیا جا سکے۔ 
یہ طریقہ اس وقت ’کراس رائٹنگ‘ یا ’کراس شیڈنگ‘ کے طور پر معروف تھا۔ اس وقت وہ لوگ صفحے پر مختلف سمتوں میں تحریر کرتے تھے تاکہ کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ تحریر کی جاسکے۔ 

ماضی میں عام طور پر لکھنے والے صفحے کی خالی رہ جانے والی جگہوں پر بھی تحریر کیا کرتے تھے (فائل فوٹو: سیدتی)

جب صفحہ پورا ہو جاتا تو تحریر کنندہ صفحے کو اُلٹ کر باقی رہ جانے والی تحریر کو ان سطور کے عکس میں لکھتا تھا جو پہلے سے لکھی گئی تھیں۔ 
بعض اوقات کراس رائٹنگ کے ماہر صفحے کے گوشوں کو بھی تحریر کے لیے استعمال کرتے تھے اور وہاں بھی باقی رہ جانے والی باتوں کو تحریر کر دیتے تھے۔ 
ڈاک کے اضافی اخراجات 
انیسویں صدی کے وسط اور 20 ویں صدی کے آغاز میں جب خانہ جنگی عروج پر تھی اس وقت مذکورہ طرز تحریر کا رواج عام تھا۔ 
بیشتر افراد اس طریقے کو ہی اختیار کرتے تھے۔ اس کی وجہ بیان کی جا چکی ہے کہ اس وقت جس کاغذ پر خط لکھا جاتا تھا اس کی قیمت کافی زیادہ ہوتی تھی، علاوہ ازیں ڈاک ٹکٹوں کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔  
اس وقت کاغذ کے سائز اور صفحات کی تعداد کے مطابق ڈاک کے ٹکٹ جاری کیے جاتے تھے۔ اضافی کاغذ یا مخصوص سائز سے بڑے کاغذ پر اضافی ٹکٹ لگائے جاتے تھے جس سے اخراجات بڑھ جاتے تھے۔ 
اسی وجہ سے خط لکھنے والے صفحے کے خالی رہ جانے والے ہر حصے کو استعمال کرتے تھے تاکہ اضافی اخراجات سے بچا جاسکے۔ 

انیسویں صدی کے وسط اور 20 ویں صدی کے آغاز میں جب خانہ جنگی عروج پر تھی اس وقت مذکورہ طرز تحریر کا رواج عام تھا (فائل فوٹو: سیدتی)

ڈی کوڈ کیا جاسکتا ہے؟ 
ویب سائٹ کے مطابق ماضی کے ان خطوط کو دیکھنے پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ تحریر میں کسی قسم کے خفیہ کوڈز استعمال کیے گئے ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرنا ہوگا۔
تاہم اسی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ماضی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج تھا۔ قاری کے لیے خط کی تحریر جاننے کے لیے کسی قسم کے خفیہ کوڈ استعمال نہیں کیے جاتے تھے۔ 
عام طور پر جو طریقے رائج تھے وہ ترچھی تحریر کے تھے یا اوپر سے نچے کی لائنیں بھی تحریر کی جاتی تھیں۔
اس وقت عام رواج یہی تھا اس لیے خط پڑھنے والوں کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ کون سی لائن کہاں ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد کا تسلسل کہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ 
 مشہور مصنفین بھی کراس رائٹنگ کا استعمال کرتے تھے   
خطوط کے حوالے سے معروف ویب سائٹ کے مطابق ماضی میں جب کراس رائٹنگ کا طریقہ عام طور پر رائج تھا اس وقت کے مشہور مصنفین اور رائٹرز جن میں ھینری جیمس، جین اوسٹن اور چارلز ڈارون بھی کاغذ کی بچت کرتے ہوئے کراس رائٹنگ استعمال کیا کرتے تھے۔ 

مشہور مصنفین ھینری جیمس، جین اوسٹن اور چارلز ڈارون بھی کاغذ کی بچت کرتے ہوئے کراس رائٹنگ استعمال کیا کرتے تھے (فائل فوٹو: سیدتی)

خوش قسمتی سے اِس دور میں کسی انتہائی پیچیدہ طرز تحریر کو اپنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس وقت کاغذ کی ارزانی اور فراوانی ہے اسی لیے کسی کو بھی ماضی کی طرح کراس رائٹنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 
البتہ آج کے دور میں جب ہمیں کاغذ کم استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ماحول کی حفاظت کی جاسکتی ہے اس لیے کیوں نہ ہم بھی صفحے کی دونوں سمتوں کو استعمال کریں بجائے اس کے کہ ایک ہی سمت میں خط لکھیں اور دوسری سمت کوخالی چھوڑ دیں۔  

شیئر: