Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خان صاحب! ویلکم، آپ کو یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی‘

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی القادر یونیورسٹی مقدمے میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں۔
جمعرات  کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔  
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب کی تحویل میں موجود عمران خان کو ایک گھنٹے میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ اتنا اچانک محسوس ہوا کہ وکلا، صحافی اور نیب حکام ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔  
اس سے پہلے کی پوری سماعت میں ایسا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ عدالت ابھی عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیرقانونی قرار دے گی۔
عدالت انہیں انصاف کے حصول کا موقع فراہم کرنے کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنے کی ہدایت کرے گی جہاں سے ٹُوٹا تھا۔  
چیف جسٹس آرڈر لکھوانے ہی والے تھے کہ ان کے دائیں جانب بیٹھے جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں مخاطب کیا اور ان کے قریب ہوکر کم وبیش ایک منٹ تک گفتگو کی۔
چیف جسٹس نے بائیں جانب جُھک کر جسٹس اطہر من اللہ سے گفتگو کی۔
پھر تینوں ججز نے آپس میں بات کی اور چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’عمران خان کہاں ہیں؟ ان کو کہاں رکھا گیا ہے؟‘
نیب کی جانب سے بتایا گیا کہ انہیں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے وہاں رکھا ہوا ہے۔  
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ’انہیں ایک گھنٹے میں پیش کیا جائے۔ ساتھ ہی کہا کہ کارکن نہیں آئیں گے اور کمرہ عدالت میں صرف وکلا اور صحافیوں کو آنے کی اجازت ہوگی‘ اور سماعت ملتوی کر دی۔
تقریباً دو گھنٹے بعد سخت سکیورٹی میں عمران خان کو ججز گیٹ کے ذریعے پہلے ججز بلاک اور بعدازاں عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں پہنچایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’خان صاحب تشریف لائیے‘ تو حامد خان کی جگہ عمران خان روسٹرم پر آگئے (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

عمران خان نیلے رنگ کی شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے ہوئے تھے جبکہ انہوں نے کالا چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔
چیف جسٹس کی کرسی کے عین سامنے والی نشست پر عمران خان بیٹھے تو وکلا نے باری باری ان سے ملنا شروع کر دیا۔
حامد خان عمران خان کے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ اس نمائندے سمیت ایک دو صحافیوں نے عمران خان کے قریب جا کر بات کرنے کی کوشش کی تو حامد خان نے کہا کہ ’آپ لوگ مجھے تنہائی میں بات کرنے کا موقع دیں۔‘
عین اسی لمحے آواز لگی کہ ’کورٹ آگیا سر‘ تو سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے۔  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’خان صاحب تشریف لائیے‘ تو حامد خان اُٹھ کر روسٹرم پر گئے تو ساتھی وکیل سے کہا کہ ’عمران خان کو بھی لے آئیں۔‘
عمران خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے خان صاحب تو حامد خان ہیں، چلیں آپ بھی آگئے ہیں تو ہم آپ سے کچھ یقین دہانی لیں گے اور آپ کو اس کے لیے ریلیف بھی دے رہے ہیں۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’خان صاحب آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے، ہماری درخواست ہے کہ اس وقت جو ملک میں ہو رہا ہے امن بحال ہو اور آپ اپنے حامیوں کو پرتشدد احتجاج سے روکنے کا پیغام دیں۔‘  

عمران خان نے بنی گالہ جانے کی خواہش ظاہر کی تو چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ’خان صاحب آپ اس وقت ہماری تحویل میں ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جواب میں عمران خان نے اپنی گفتگو کی تمہید باندھنے کے لیے القادر ٹرسٹ کیس کے میرٹس پر بات کرنا شروع کی تو جسٹس اطہرمن اللہ نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ ’سیاست دان نہ بنیں بلکہ ملک کو اس وقت سٹیٹس مین کی ضرورت ہے۔‘ 
عمران خان نے اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے تمام واقعات سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا۔ میں اس وقت اندھا اور بہرہ ہوں۔ ہم امن چاہتے ہیں اس لیے کہتا ہوں کہ پر تشدد احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’خان صاحب آپ خود کو ان شہدا کے وارثوں کی جگہ رکھ کر دیکھیں جن کے بچوں نے اس ملک کے لیے جانیں دی ہیں۔‘  
کیس آگے بڑھا اور چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں جائیں ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی گرفتاری غلط ہوئی ہے کیونکہ آپ نے عدالت کے سامنے خود کو سرنڈر کر دیا تھا۔‘  
اس پر عمران خان نے کہا کہ ’بس مجھے گھر جانے کی اجازت دے دیں۔‘  

عمران خان نے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے تمام واقعات سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا (فائل فوٹو: عمران خان فیس بُک)

جب چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس سے ریسٹ ہاؤس کے بارے میں تفصیلات لیں اور حکم دیا کہ خان صاحب کو وہاں رکھا جائے تو عمران خان نے کہا کہ ’مجھے بنی گالہ جانے دیا جائے وہ زیادہ محفوظ جگہ ہے۔‘ 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ’خان صاحب آپ اس وقت ہماری تحویل میں ہیں۔‘
’آپ نہیں سمجھتے کہ صورت حال کیا ہے۔ مجھے بھی پیغام دیا گیا ہے کہ ’آپ انتظار کریں کہ آپ کا گھر کب جلایا جاتا ہے۔‘  
عمران خان نے کہا کہ ’بنی گالہ محفوظ جگہ ہے اور آپ کے آرڈر کی برکت سے مزید محفوظ ہو جائے گی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس صرف ایک قلم اور اللہ کی برکت ہے۔‘ آپ کے ساتھ 10 افراد کو رہنے کی اجازت ہوگی جن میں آپ کی فیملی، دوست اور وکلا ہو سکتے ہیں۔ رات کو گپ شپ لگائیں اور چاہیں تو اُدھر ہی سو جائیں۔‘ 
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کریں گے‘ اور پھر درخواست نمٹا دی۔  

شیئر: