Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کور کمانڈر کے گھر سے ’مور چُرانے پر 10 سال کی سزا‘؟

یوٹیوبرز کو اس نوجوان نے بتایا کہ اس نے مور کو ’ریسکیو‘ کیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران لاہور میں واقع کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بولا گیا تھا اور اس دوران ایک نوجوان کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی جس کے ہاتھ میں ایک مور تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ یہ شخص کور کمانڈر کی رہائش گاہ سے مور ’چُرا‘ کر لے جا رہا تھا۔ تاہم بعد میں متعدد یوٹیوبرز کو اس نوجوان نے بتایا کہ اس نے مور کو ’ریسکیو‘ کیا تھا۔
لیکن وضاحتی بیان اس نوجوان کے کسی کام نہ آیا اور اسے پنجاب پولیس نے گرفتار کر لیا اور گرفتاری کے بعد اس کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
جمعرات کو ٹوئٹر پر کچھ صارفین کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس شخص کو مور چُرانے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سُنا دی گئی ہے۔
ماہا نامی صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ ہے اور ایک ہفتے میں ان کے فائنل امتحان ہونے والے ہیں لیکن انہیں ایک مور اٹھانے کے جُرم میں 10 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔‘

اس ’خبر‘ کے وائرل ہونے کے بعد کئی صارفین کی طرف سے یہ بھی مؤقف سامنے آیا کہ کسی سٹوڈنٹ کو 10 سال قید کی سزا سُنانا ٹھیک نہیں اور اسے دوسرا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔

پاکستانی نظام عدل پر عبور رکھنے والے افراد کو اس ’خبر‘ کی صداقت پر یقین نہیں آیا۔
وکیل رہنما صلاح الدین احمد نے لکھا کہ ’یہ ناممکن ہے کہ اُسے صرف ایک ہفتے میں سزا سُنا دی گئی ہے۔ اتنی جلدی تو فوجی عدالت بھی کام نہیں کرتی۔‘

اُردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز نے جب حوالے سے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ مور چُرانے والے شخص کو سزا سنانے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں اور حکام کی اس قسم کی کسی بھی اطلاع کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
ان کی معلومات کے مطابق پنجاب بھر میں پُرتشدد مظاہروں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے الزام میں پولیس نے 3500 سے زائد افراد کو گرفتار کر رکھا ہے اور کسی ایک ملزم کے کیس کا چالان بھی پنجاب کی کسی عدالت میں جمع نہیں کروایا گیا۔
محکمہ پراسیکیوشن کے مطابق کسی بھی مجرم کو ابھی تک سزا تو درکنار کسی ملزم کا ٹرائل بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ کور کمانڈر لاہور کی رہائش کو آگ لگانے والے ملزمان ابھی شناخت پریڈ کے مراحل میں ہیں اور عدالت نے 80 افراد کو شناخت پریڈ کے لیے جوڈیشل کسٹڈی میں جیل میں رکھا ہوا ہے۔

شیئر: