پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک میں جعلی پولیس مقابلوں سے متعلق مقدمہ درخواست گزار کے دنیا سے گزر جانے کے دو سال بعد سماعت کے لیے مقرر کیا اور چند منٹ کی سماعت میں یہ کہہ کر نمٹا دیا کہ درخواست گزار کے وفات پا جانے کے بعد کیس موثر نہیں رہا۔
درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے 2018 میں پٹیشن دائر کی تھی کہ ملک میں پولیس مقابلے بڑھ رہے ہیں جن کے بارے میں تاثر ہے کہ ان میں زیادہ تر جعلی ہیں۔ سپریم کورٹ متعلقہ اداروں سے ان کی تفصیلات مانگے اور روک تھام کے لیے اقدمات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں
-
سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کے انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیاNode ID: 767581
سنہ 2018 سے 2023 کے دوران یہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکا۔ دو سال قبل درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ کورونا کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے رواں ہفتے کی کاز لسٹ میں کیس 15 جون کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔
جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ’درخواست گزار طارق اسد وفات پا چکے ہیں۔ درخواست گزار کی وفات کے باعث کیس غیر موثر ہو چکا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے کیس نمٹا دیا۔
یہ پہلا کیس نہیں ہے جو اتنی تاخیر کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا بلکہ رواں ماہ تین ایسے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کیے گئے جو عوام کی یاداشت سے بھی معدوم ہو چکے تھے۔
ان میں پانامہ میں 436 پاکستانیوں کے ناموں کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست سات سال بعد سماعت کے لیے مقرر کی گئی جبکہ عطاءالحق قاسمی کی ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی بھی چار سال بعد گزشتہ ہفتے سماعت کی گئی۔
ایک ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات، سپریم کورٹ سے متعلق قانونی سازی اور دیگر کئی اہم قومی نوعیت کے مقدمات سن رہی ہے، ایسے میں اچانک سے پرانے مقدمات سماعت کے لیے مقرر ہونا کیا معمول کی بات ہے؟
اس حوالے سے وکلاء برادری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں پرانے مقدمات کا سماعت کے مقرر ہونا بعض اوقات تو معمول ہو سکتا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ محرکات لازمی ہوتے ہیں۔
وکلاء کے مطابق عموماً سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کے لیے بھی پرانے کیسز مقرر کر کے جلدی جلدی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات جب عدالت میں سیاسی مقدمات زیادہ ہو جائیں تو بیلینسنگ ایکٹ کے طور پر پرانے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کر کے یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔

’ریٹائرمنٹ سے پہلے چیف جسٹس کی بیک لاگ کم کرنے کی خواہش ہوگی‘
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر قانون اور سینیئر قانون دان بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ ’یہ روٹین کا معاملہ ہے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور اس کا بہت سا وقت غیرضروری مقدمات جن میں خاص طور 184(3) پر صرف ہو جاتا ہے۔ اصولاً تو اس شق کے تحت مقدمات سپریم کورٹ میں ہونے ہی نہیں چاہئیں۔ دس پندرہ سال میں کوئی ایک آدھ کیس آنا چاہیے۔ انڈیا میں یہی قانون ہے اور وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں چیف جسٹس اور سینیئر جج صاحبان کا زیادہ وقت ان مقدمات کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے اور سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے جب کوئی وقت ملتا ہے تو وہ پرانے مقدمات لگاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چونکہ چیف جسٹس تین چار ماہ میں ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ جب وہ ریٹائر ہوں تو وہ بیک لاگ کم کر کے جائیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کا حصہ رہنے والے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ بھی بیرسٹر ظفراللہ کی بات سے متفق ہیں کہ پرانے مقدمات زیرالتوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کے لیے ہی لگائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جیسے پانامہ کا کیس اب لگا ہے تو اس میں تاخیر کی ذمہ داری صرف چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ ان سے پہلے جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار بھی چیف جسٹس رہے تو وہ بھی اتنے ہی قصور وار ہیں۔ یقیناً یہ کیس بہت پہلے سنا جانا چاہیے۔‘
