Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کے انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا

آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستیں رواں ہفتے دائر کی گئیں (فائل فوٹو: اردو نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کا حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔
جمعے کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے آڈیولیکس کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے 19 مئی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔
انکوائری کمیشن کے خلاف عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
ان  درخواستوں میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹی فیکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت لینا ضروری ہے۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یک طرفہ اقدام سے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی ہے،‘
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
اس سے قبل جمعے کو ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچ سے علیحدہ ہونے کی اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ ہمارے اختیارات میں مداخلت کریں گے اور وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر۔۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔‘

 تحریری حکم نامے کے مطابق ’انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت ضروری لینا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جمعے کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس اظہر رضوی شامل تھے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا۔ اس پر چیف جسٹس بظاہر بہت غصے میں نظر آئے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ ہمارے اختیارات میں مداخلت کریں گے اور وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر۔۔۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے فقرہ مکمل کیے بغیر ہی بات دوسری طرف لے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے؟ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتہ تھا کہ اٹارنی جنرل میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھائیں گے۔ میں اس درخواست کے لیے تیار ہو کر آیا تھا۔ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا معلوم تھا کہ اٹارنی جنرل بینچ میں ان کی شمولیت پر اعتراض اٹھائیں گے (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کے بعد یہ معاملہ سینیئر جج کو سننا چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس بولے کہ ’بہت ہو گیا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس مقدمہ سنے نہ یہ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت مرضی کا فورم چنے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 میں چیف جسٹس کی مشاورت سے کمیشن کی تعیناتی کا ذکر نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا ذکر تو کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 میں بھی نہیں، لیکن اس پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ تین کیسوں میں حکومت نے ججز کو کمیشن نامزد کیا اور پھر نوٹی فیکیشن واپس لینا پڑے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہم نے بہت سے مقدمات میں آپ سے فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کی درخواست کی۔‘
اس پر چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بتانا چاہتے تھے کہ آپ نے قانون جلد بازی میں بنایا۔ اگر ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو راستہ بتاتے۔ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا۔‘
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آپ نے کس کا مشورہ لیا تھا؟ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کا بہت احترام کرتے ہیں کیونکہ آپ بہت نفیس انسان ہیں اور بنیادی طور پر آپ کے مؤکل وفاقی حکومت کا احترام کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن 19 مئی کو تشکیل دیا گیا تھا (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کے سانحے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔
درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر انکوائری کمیشن نہیں بن سکتا۔ عدالت کی اجازت کے بغیر آڈیو ریکارڈنگ کرنا غیر قانونی ہے۔ یہ پیکا اور سائبر کرائم ایکٹ دونوں کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی حکومت نے نہیں کہا کہ آڈیو قانون کے تحت ریکارڈ کی گئیں۔ سب کچھ غیر قانونی ہو رہا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں نہیں لکھا کہ آڈیو قانونی طور پر ریکارڈ کی گئیں۔‘
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی کا فیصلہ ہے کہ آڈیو ٹیپس قانونی طریقہ کار کے بغیر نہیں چلائی جا سکتیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ہوتے ہوئے کوئی کمیشن قائم ہونا ممکن نہیں۔ لگتا ہے حکومت نے کمیشن جلد بازی میں بنایا۔ جلد بازی میں کیے گئے کام اکثر غلط ہو جاتے ہیں۔‘
بعدازاں سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مختصر عبوری حکم جاری کیا جائے گا۔

شیئر: