Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور ہائیکورٹ نے فوج کو زرعی زمین لیز پر دینے کا عمل غیرقانونی قرار دے دیا

لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری زمین پنجاب حکومت کو واپس کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستانی فوج اور پنجاب حکومت کے مابین 10 لاکھ ایکڑ اراضی لیز پر دینے کے معاہدے کو غیرآئینی، غیر قانونی اور غیر شفاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں صوبے کے بورڈ آف ریوینیو کو کہا ہے کہ سرکاری کاغذات میں زمین کی ملکیت فوج سے ہٹا کر واپس حکومت کے نام منتقل کرکے رپورٹ 15 روز میں اسی عدالت میں پیش کی جائے۔
بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عابد حسین چٹھہ نے اپنے طویل حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے پاس کارپوریٹ فارمنگ جیسے معاملات میں الجھنے کے لیے آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے۔
تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جج نے پنجاب حکومت اور فوج کے مابین 2021 میں شروع ہونے والے اس بندوبست کا بیک گراونڈ تحریر کیا ہے جس کے تحت پنجاب حکومت فوج کو 10 لاکھ ایکڑ اراضی بیس سال کے لیے لیز پر دے رہی تھی۔
فوج کا پروپوزل تھا کہ وہ اس زمین پر کارپوریٹ فارمنگ کرنا چاہتی ہے تاکہ ’ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے‘۔ عدالت نے اس بندوبست کی بابت ہونے والی پیش رفت کو اپنے فیصلے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے 2022 کے اپریل کے مہینے میں اس ڈیل کو پنجاب اسمبلی کے فلور پر بحث کے لیے پیش کرنے کی تجویز دی گئی۔
البتہ اس کے بعد جب نگراں حکومت وجود میں آئی تو اس عمل کو انتہائی تیزی کے ساتھ مکمل کر کے 10 لاکھ ایکڑ زمین فوج کو الاٹ کر دی گئی۔
پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن نامی ایک تنظیم جس میں کئی معتبر وکلا شامل ہیں، نے اس الاٹمنٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت نے پہلی ہی سماعت پر حکم امتناعی جا ری کرتے ہوئے فوج کو زمین کے استعمال سے تو روک دیا البتہ کئی مہینے تک فریقین کے دلائل سنے گئے۔
بدھ کو عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ جاری کیا اور نگراں حکومت کے اس اقدام کو اختیارات سے تجاوز اور غیر قانونی قرار دے دیا جس کے تحت  فوج کو یہ زمین الاٹ کی گئی۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ نگراں حکومت کے پاس اس طرح کے فیصلے لینے کا آئینی اور قانونی استحقاق نہیں ہے۔
البتہ اپنے فیصلے میں عدالت نے یہ راستہ رکھا ہے کہ ’اگر مستقبل کی جمہوری حکومت اس معاہدے کو شروع کرنا چاہے گی تو وہ اس عمل کو وہاں سے شروع کرے گی جہاں پچھلی حکومت میں چھوڑا گیا تھا۔ جبکہ پچھلی حکومت نے لیز کے معاہدے کو اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز دی تھی۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاستی وسائل پر حق صرف اورصرف عوام کا ہے اور حکومت کے پاس ریاستی وسائل ایک امانت کی طرح ہیں۔ ریاستی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز کا عمل غیر شفاف اور مخصوص گروہ کو نوازنے کے مترادف ہے۔‘
ایسے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں سرکاری وسائل کی تقسیم کے لیے شفاف طریقہ کار اپنانے کےاحکامات موجود ہیں جس میں تمام افراد کو مساوی سطح پر ایسے کسی بھی عمل کا حصہ بننے کی اجازت ہے نہ کہ ایک مخصوص طبقے کو۔
آخر میں عدالت نے اس فیصلے کی ایک کاپی وفاقی حکومت  آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کو بھی بھیجنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

شیئر: