Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرمایہ کاری کونسل میں فوج اور سول حکومت کیسے کام کریں گے؟

حکومت پاکستان نے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے، معاشی بحران سے نجات پا کر برآمدات بڑھانے اور کئی شعبوں میں خودکفیل ہونے کے لیے ایک طویل المدتی منصوبے کا اعلان کیا ہے جس پر عملدرآمد کے لیے ایک سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی گئی ہے۔
اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق یہ کونسل سول اور عسکری اداروں کے باہمی اشتراک سے کام کرے گی اور کورونا کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی طرز پر جامع حکمت عملی کے تحت منصوبوں کو آگے بڑھائے گی۔
یہ صوبوں، وفاق اور مختلف اداروں کے مابین رابطہ قائم کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے تمام معاملات کو ایک مربوط شکل دیتے ہوئے زراعت، لائیو سٹاک،  معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی جیسے شعبوں میں پیداوار بڑھا کر نہ صرف ملک کو خود کفیل بنائے گی بلکہ برآمدات میں بھی بڑا اضافہ کرے گی۔ 

معاشی بحالی کا قومی پلان سی پیک سے بھی بڑا پراجیکٹ؟

کونسل کی تشکیل کے پس منظر سے متعلق آگاہی رکھنے والے اعلٰی سرکاری حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ اس کے مقاصد کی کامیابی کے لیے عسکری قیادت وفاقی حکومت کو بھرپور مدد فراہم کر رہی ہے اور اس منصوبے کو اس وقت ملک کے سب سے اہم عمل کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
عسکری حلقے اس کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) سے بھی بڑا پراجیکٹ تصور کر رہے ہیں۔ 
اردو نیوز کو دی گئی معلومات کے مطابق اگرچہ اس منصوبے کا زیادہ انحصار بیرونی سرمایہ کاری پر ہے جس کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین سے بات چیت ہوئی ہے اور اس سرمایہ کاری کے لیے فیسیلی ٹیشن کونسل کی سطح پر ایک ون ونڈو نظام بھی بنایا جا رہا ہے تاہم ملکی سطح پر وسائل کی پیداوار میں اضافہ بھی اس کا اہم جزو ہے۔ 
اس کے مرکزی مقاصد میں اگلے چار سے پانچ سالوں میں 15 سے 20 لاکھ تک کے لیے بلاواسطہ اور ایک کروڑ لوگوں کے لیے براہ راست نوکریوں کا بندوبست، برآمدات کو 70 ارب ڈالر تک پہنچانا، 70 ارب ڈالر کی درآمدات کو ختم کر کے ان کے مقامی متبادل تیار کرنا اور 100 ارب ڈالر تک کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کر کے ملکی معیشت کو 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔

ایس آئی ایف سی کیسے کام کرے گی؟

ایس آئی ایف سی کے ایک اہم رکن جو اس کے سیکریٹیریٹ اور ٹیم کی تشکیل کے لیے کام کر رہے ہیں نے اردو نیوز کو بتایا کہ کونسل کے کام کی برق رفتاری کے لیے تین سطح کی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو وزیراعظم، آرمی چیف اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر نگرانی کام کریں گی۔ 
تاہم اس کی فکنشنل کمیٹی تین مرکزی اراکین پر مشتمل ہو گی جن میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر جہانزیب، فوج کے ایک سینیئر  میجر جنرل اور سرمایہ کاری بورڈ کے ایک سینیئر عہدیدار شامل ہیں۔
کونسل کی مرکزی ٹیم میں 30 سے 35 سینیئر سرکاری عہدیدار ہوں گےجن میں فوج کے متعدد میجر جنرلز شامل ہیں۔ 

عسکری حلقے اس کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) سے بھی بڑا پراجیکٹ تصور کر رہے ہیں۔ (فوٹو: پی ایم آفس)

ایس آئی ایف سی کے رکن نے بتایا کہ کونسل نے کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی، پیٹرولیم اور زراعت کے شعبوں سے پہلے ہی مختلف پراجیکٹس منتخب کر کے ان پر کام شروع کر دیا ہے اور ان پر چند ہفتوں میں پیشرفت متوقع ہے۔ ’کیونکہ کونسل کی تشکیل ہی سرمایہ کاری منصوبوں پر جنگی بنیادوں پر کام کے لیے کی گئی ہے۔  ‘
رکن کے مطابق پہلے قدم کے طور پر سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے پراجیکٹس پر فوکس کیا گیا ہے اور ان کو مکمل کرنے کے بعد دوسرے ممالک کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ 

ایس آئی ایف سی میں فوج کا کردار

ایک سوال کے جواب میں اعلٰی عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کا خلیجی ممالک میں گہرا اثر ورسوخ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے قدم کے طور پر ان ممالک کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔ 
عسکری ذرائع نے بھی اردو نیوز کے استفسار پر تصدیق کی ہے کہ ’سرمایہ کاری اور خود انحصاری کے اس نئے میگا منصوبے کے انتظامی امور اور ہم آہنگی میں پاک فو ج کا کلیدی کردار ہو گا۔‘
اعلٰی عسکری حکام نے بتایا کہ ’پاک فوج اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے انتظامات اور رابطہ کاری کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرے گی۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ جوں ہی مضبوط، مستحکم اور  کامیابی کے قریب پہنچے گا تو فوج اپنا کردار بتدریج کم کر دے گی۔
فوج کی مدد سے یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ فوج اس میں مستقل اور دیرپا بنیادوں پر ترقی کو یقینی بنائے گی۔‘
اِس طریقہ کار کی مثال ہمیں چین اور دیگر ممالک میں بھی ملتی ہے۔‘

معاشی سے زیادہ سیاسی قدم

وفاقی حکومت اور عسکری حکام تو اس منصوبے کو ملکی ترقی کے لیے ایک پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں تاہم ماہرین اس منصوبے کی کامیابی کے بارے میں بات کرنے کو قبل ازوقت سمجھتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ خیالات پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے ڈاکٹر ادریس خواجہ کے ہیں جو اس قدم کو بے وقت اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہیں۔

اعلٰی عسکری حکام نے بتایا کہ ’پاک فوج اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے انتظامات اور رابطہ کاری کے لیے اپنی تمام تر توانائی صرف کرے گی۔‘۔ (فوٹو: پی ایم آفس)

اس حکومت کی مدت تو اب دو ماہ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ یہ کیسے اس منصوبے کی تکمیل اور کامیابی کی ضمانت دے سکتی ہے؟ پھر اس کے بارے میں کوئی واضح تکنیکی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ یہ ایک غیر ضروری قدم ہے۔‘
ڈاکٹر ادریس کے مطابق یہ معاشی سے زیادہ سیاسی اقدام لگ رہا ہے۔
کل اگر کسی دوسری جماعت کی حکومت آ گئی اور انہوں نے اس منصوبے کو آگے نہ بڑھایا تو پھر یہ سیاسی نعرہ لگائیں گے کہ ہم تو ترقی کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن اس حکومت نے آ کر یہ منصوبہ ختم کر دیا ہے۔‘
اس کے باوجود کونسل کے ساتھ کام کرنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر اس کو تھوڑا سا بھی وقت مل گیا تو یہ منصوبہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ زیادہ نہیں تو ملکی زراعت سنبھل سکتی ہے۔
لیکن ملتان کے نواحی قصبے ٹاٹا پور میں زمینداری کرنے والے کاشتکار مظہر گردیزی کے مطابق حکومت زراعت کی ترقی کے صرف نعرے لگاتی ہے اور زمین پر کوئی کام نہیں کرتی۔
انہوں نے اپنے کھیتوں سے اردو نیوز کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مکئی کی فصل اتر چکی ہے اور کاشتکار کو اس کی مناسب قیمت نہیں مل رہی۔ اس لیے کوئی کاشتکار مکئی بیچنے کو تیار نہیں ہے۔‘
حکومت اگر واقعی زراعت کی ترقی چاہتی ہے تو کاشتکار کو فصلوں کی مناسب قیمت دے۔ مکئی جیسی فصل جو کہ بہت ذیادہ ہوتی ہے کی برآمد کا انتظام کرے۔ پہلے انہوں نے اس ملک میں کپاس کی قیمت نہ دے کر اس فصل کو تباہ کیا۔ اب ہم کپاس کو چھوڑ کر مکئی کی طرف آئے ہیں تو اس کی بھی مناسب قیمت نہ دے کر اس کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔‘

شیئر: