’خان صاحب ورلڈ کپ آرہا ہے‘۔۔۔ ’یار اب کرکٹ پر کیا بات کرنی‘
’خان صاحب ورلڈ کپ آرہا ہے‘۔۔۔ ’یار اب کرکٹ پر کیا بات کرنی‘
جمعرات 3 اگست 2023 20:22
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
تحریک انصاف کے میڈیا ونگ نے چند بین الاقوامی صحافیوں کے لیے عمران خان کے ساتھ ایک گفتگو کا اہتمام کر رکھا تھا۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد زمان پارک میں عمران خان کی غیر ملکی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے ساتھ پہلی پریس کانفرنس تھی۔
ٹھیک شام 7 بجے صحافیوں کو ڈرائنگ روم تک رسائی دی گئی۔ ڈرائنگ روم کچھ بدلہ بدلہ لگ رہا تھا۔ لانگ مارچ میں فائرنگ کی زد میں آنے کے بعد جب عمران خان نے لاہور میں ڈیرے لگائے تو اس ڈرائنگ روم کی سرخ کرسی تقریبا ہر تصویر اور ویڈیو میں نظر آئی۔ آج البتہ ڈرائنگ روم کے فرنیچر میں ردوبدل نظر آرہا تھا۔ لال کرسی تو موجود تھی، لیکن اس کی جگہ یکسر بدل چکی تھی۔
خان صاحب بغیر تاخیر کمرے میں داخل ہوئے اور اسی کرسی پر بیٹھ گئے۔ تاہم آج ان کے کمرے میں داخلے کے وقت ان کے ساتھ سکیورٹی یا قریبی ساتھیوں کی بھیڑ نہیں تھی، وہ اکیلے آئے اور کرسی پر بیٹھ گئے۔
صحافیوں سے تعارف کے بعد انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا تو وہ حال ہی میں پاس ہونے والے نئے قوانین سے متعلق تفکر میں دکھائی دیے۔ انہوں نے کہا کہ ’ایسے قوانین تو مارشل لا کے دور میں بھی نہیں بنائے گئے۔‘
اس پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ اگر یہی قوانین موجود سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال ہونے لگے تو کیا آپ مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں گے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’ہم تو پہلے بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے پنجاب الیکشن کے لیے بھی بیٹھے، لیکن ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔‘
عمران خان کی باڈی لینگوئج میں ٹھہراو اور چہرے پر تفکر کے آثار نمایاں تھے۔ ایک مرتبہ بات کرتے ہوئے خان صاحب کے حلق میں الفاظ پھنس گئے۔ تاہم انہوں نے اس پر فوری قابو پایا۔
تسبیح آج بھی ان کے ہاتھوں میں تھی اور وہ سوالوں کے وقفے کے دوران زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے۔ تاہم کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے بائیں ہاتھ کی گرفت کبھی کبھی کمزور ہو جاتی ہے۔
تاہم اس ساری صورت حال میں وہ چھوٹے چھوٹے چٹکلے نہیں بھولے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا سیاسی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے بیک ڈور رابطے ہیں؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ’ویسے بھی جب پہلے رابطے تھے تو ہمیں کیا پتا تھا کہ ہماری طرف سے جو لوگ رابطے کر رہے تھے وہ یہ رابطے اپنے لیے کر رہے تھے۔‘
یہ بات کہتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ان کا اشارہ غالباً ساتھ چھوڑ جانے والے اپنے دیرینہ ساتھیوں کی طرف تھا جو مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
عمران خان نے اپنے خلاف چلنے والے مقدمات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنی تیزی سے توشہ خانہ کیس کا ٹرائل چلایا جا رہا ہے اتنی تیزی تو ملٹری کے سمری ٹرائل میں بھی نہیں ہوتی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کی گرفتاری دوبارہ ہوتی ہے تو کیا ان کے کارکن پھر نکلیں گے؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان کا حق ہے۔‘
کئی دفعہ عمران خان کے چہرے پر بیزاری کے اثرات بھی نظر آئے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’خان صاحب ایشیا کپ اور کرکٹ ورلڈ کپ بھی آرہے ہیں اس پر کوئی کمنٹ کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’یار چھوڑ کرکٹ پر اب کیا بات کرنی۔‘ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے کے تاثرات منفرد تھے۔
طالبان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کی لہر پر سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی طالبان کے ساتھ مذکرات کے حامی ہیں۔ البتہ انہوں نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے کابل نہ جانے پر کڑی تنقید بھی کی۔
جب محفل برخواست ہونے لگی تو ایک صحافی نے کرسی کی جگہ تبدیل ہونے کی طرف اشارہ کیا تو عمران خان چلتے ہوئے رک گئے اور کہا کہ ’یار اس طرف انہوں نے کوئی ریکارڈنگ ڈیوائس لگائی ہوئی تھی، اس لیے کرسی کی جگہ تبدیل کی۔ جس پر کمرے میں قہقہے گونج اٹھے۔‘