Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں فولادی پیر والا انسان ہوں،‘ معذوری کو شکست دینے والا نوجوان

یہ پیغام دینا ہے معذوری خوابوں کی تکمیل  کی راہ میں حائل نہیں ہوتی (فوٹو العربیہ نیٹ)
ایک پاؤں سے محروم سعودی نوجوان نے معذوری کو شکست دے کر کامیابی کی نئی مثال قائم کی ہے۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق طارق الحمید 26 سال پہلے مسجد میں نماز پڑھانے کے بعد اپنے چھوٹے سے قریے سے باہر نکلے تو راستے میں ٹریفک حادثے کا شکار ہونے پر ایک پاؤں سے محروم ہو گئے۔ وہ بچپن ہی سے قریے کی مسجد میں اذان اور امامت کیا کرتے تھے۔ 
طارق الحمید نے کہا کہ ’میرے ماں، باپ اور خاندان نے مجھے بڑا سہارا دیا۔ والدین نے کہا تمہارا کچھ نہیں بگڑا تم جس قدر طاقتور پہلے تھے اب بھی ہو۔ مجھے معاشرے کی جانب سے خود پر ترس کھانے والی باتیں بری لگتی تھیں۔‘

امیر جازان ایوارڈ بھی حاصل کیے ہوئے ہوں۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

طارق الحمید نے کہا کہ ’بچپن سے مجھے ٹیکنیکل کام پسند ہے اور اس طرح کے بہت سارے کام شوقیہ کرتا رہا ہوں۔ کئی بار شارٹ سرکٹ اور چھت سے گرنے کے واقعات سے بھی دوچار ہوچکا ہوں۔ مجھے کھلونے توڑ کر جوڑنے کا شوق بھی رہا ہے۔‘
 ’میں نے کمپیوٹر کی ریپیئرنگ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ میرے ذہن میں یہ چیلنج ہمیشہ رہا کہ ہمت نہیں ہارنی بلکہ کچھ کر کے دکھانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلسل محنت اور پکے عزم  سے بڑی کامیابیاں ملیں۔ کئی ایوارڈ حاصل کیے۔ امیر جازان ایوارڈ بھی حاصل کرچکا ہوں۔‘

ٹیکنیکل کاموں سے مجھے شروع سے دلچسپی ہے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

سعودی نوجوان نے بتایا کہ وہ کھارے پانی کو استعمال کے قابل بنانے والے ادارے میں ملازم ہیں۔ ان کا کام حساس آلات سے متعلق ہے اور مشقت طلب ڈیوٹی ہے۔
’اس کے لیے جسمانی طاقت بھی درکار ہوتی ہے۔ ایک ایسے پروجیکٹ پر کام کیا جو بڑا چیلنجنگ تھا۔ پہاڑوں کے راستے پانی کی سپلائی لائن بنانے کا پروجیکٹ مکمل کیا۔ اس پر اور بھی کئی لوگ کام کر رہے تھے بڑے مشکل حالات میں پروجیکٹ کیا گیا۔‘
طارق الحمید کا کہنا ہے کہ ’اپنی ڈیوٹی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ مسلسل آنا جانا پڑتا ہے۔ شدید گرمی کے ماحول میں ڈیوٹی دینا ہوتی ہے۔ لیکن مجھے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔‘
 ’پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مشکل ترین کام کرنا مجھے اچھا لگتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اپنی پیشہ ورانہ استعداد اور لیاقت بہتر سے بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔‘

میرے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں معذور ہوں۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

انہوں نے کہا کہ ’میرے پیش نظر یہ بات بھی رہتی ہے کہ معاشرے کو یہ پیغام دوں کہ معذوری خوابوں کی تکمیل کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ میرا ایک پیر مصنوعی ہے۔ اس تناظر میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میں فولادی پیر والا انسان ہوں،‘
طارق الحمید نے بتایا کہ وہ پندرہ برس سے کھارے پانی کو استعمال کے قابل بنانے والے ادارے میں کام کر رہے ہیں۔
’حیرت کی بات یہ ہے کہ رفقائے کار کو بھی اس کے پاؤں سے معذوری کا علم اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ ادارے کی جانب سے نہیں بتایا گیا۔ سب لوگ سن کر حیرت میں پڑ گئے تھے کیونکہ جس چستی اور تیزی سے ڈیوٹی انجام دیتا، کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ میں ایک پاؤں  سے محروم ہوں۔‘
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: