’وہ عید کا سماں تھا‘، بٹگرام میں ریسکیو کیے گئے بچے والدین سے کس طرح ملے؟
’وہ عید کا سماں تھا‘، بٹگرام میں ریسکیو کیے گئے بچے والدین سے کس طرح ملے؟
بدھ 23 اگست 2023 20:42
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
عمر زیب نے بتایا کہ دو گھنٹوں کے بعد وہ چیئر لفٹ کے مقام تک پہنچ گئے (فوٹو: اے ایف پی)
راستہ کٹھن اور طویل ہے۔ عمر زیب نے دو گھنٹوں کی مسافت طے کرنی ہے۔ ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اوران کے ذہن میں مختلف تصویریں گردش کر رہی ہیں۔ ’میرا بیٹا زندہ ہوگا یا دریا میں بہہ گیا ہوگا؟ چیئر لفٹ کی رسی کٹ چکی ہوگی یا ابھی میرا بیٹا ہوا میں معلق ہوگا؟ آخر میرا بیٹا کس حال میں ہوگا؟‘ عمر زیب کے لیے یہ دن زندگی کا سب سے مشکل دن قرار پایا۔
بٹگرام تحصیل الائی میں چیئر لفٹ میں پھنسے نیاز محمد کے والد عمر زیب ایک مزدور ہیں۔ وہ صبح جلدی اٹھ کر کام پر جاتے ہیں۔ حادثے کے دن بھی وہ صبح سویرے اٹھے اور اپنے کام کے لیے روانہ ہوگئے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے اپنے کام کی جگہ پر آٹھ بجے پہنچنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم سب گھر والے جلدی اٹھ جاتے ہیں۔ میرا بیٹا نیاز محمد بھی میرے ساتھ اٹھا اور سکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔ صبح چھ بجے وہ سکوال کے لیے روانہ ہوا، جبکہ میں کام پر چلا آیا۔‘
ان کے بقول ان کے گھر سے چیئر لفٹ تک آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ ’میں آٹھ بجے اپنے کام پر پہنچ چکا تھا، لیکن اس دوران میرا بیٹا چیئر لفٹ میں زندگی اور موت کے کشمکش میں تھا۔ مجھ سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں موبائل نیٹ ورک کمزور ہوتا ہے اس لیے انہیں کام پر پہنچتے ہی یہ خبر دی گئی کہ آپ کا بیٹا چیئر لفٹ میں پھنس چکا ہے اور چیئر لفٹ کی رسی کٹ چکی ہے۔ اس دوران بچوں کو چیئر لفٹ میں پھنسے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔
’یہ خبرسنتے ہی میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ مجھے خیال آتا کہ میں اُڑ جاؤں اور فوراً اپنے بیٹے کے پاس پہنچ جاؤں۔ میرے سامنے دو گھنٹوں کا راستہ تھا۔ میں پیدل بھاگتا ہوا جا رہا تھا اور ذہن میں مختلف وہم لیے خود سے باتیں کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اپنے بیٹے کو زندہ دیکھ بھی سکوں گا یا نہیں؟‘
عمر زیب نے بتایا کہ دو گھنٹوں کے بعد وہ چیئر لفٹ کے مقام تک پہنچ گئے۔ اس وقت وہ دعائیں کر رہے تھے کہ اب کوئی معجزہ ہو اور ان کا بیٹا بچ جائے۔ ’میرے بیٹے کے بستے سے ساری کتابیں نیچے گر گئی تھیں، اس کا موبائل بھی گر گیا تھا، ساری چیزیں گر گئی تھیں، لیکن یہ آٹھ لوگ معجزاتی طور پر ایک رسی کے سہارے ابھی تک محفوظ تھے۔‘
ان کے بقول وہ وہاں ایک جگہ پر نہیں ٹک پا رہے تھے۔ ’میں کبھی جھگڑی کے مقام پر چیئر لفٹ کے دوسرے سرے تک جاتا تو کبھی بٹنگی کے سرے تک جاتا، مجھے چین نہیں آرہا تھا۔‘
ان کے مطابق جب ہیلی کاپٹرز ریسکیو کرنے کے لیے پہنچے تو انہیں کسی حد تک تسلی ہوئی۔ اس وقت تک وہ بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم صرف یہی چاہتے تھے کہ اپنے بچوں سے صرف ایک بار بات کر سکیں، پھر سکول ٹیچر گلفراز سے رابطہ ہوا تو ان کے موبائل فون کے ذریعے میں نے اپنے بیٹے نیاز محمد سے بات کی۔‘
عمر زیب کے بقول ان کا بیٹا خوف کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہا تھا۔ ’وہ صرف یہی کہتا جا رہا تھا کہ ہمارے لیے بخشش کی دعا کریں، ہمیں نہیں معلوم کہ ہم بچ جائیں گے۔‘
یہ جملہ ادا کرنے کے بعد عمر زیب آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے مزید گفتگو روتے ہوئے جاری رکھی۔
دوسری جانب متاثرہ چیئر لفٹ میں ان بچوں کے ساتھ گلفراز نامی سکول ٹیچر موجود تھے اور اس مشکل گھڑی میں ان کو دلاسہ دے رہے تھے۔ گلفراز کے بھائی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گلفراز جب چیئر لفٹ میں پھنس گئے تو انہوں نے گھر والوں سے رابطہ کیا۔
’گلفراز نے ریسکیو ہونے کے بعد ہمیں بتایا کہ ’ہم 16 گھنٹوں تک ہوا میں معلق رہے۔ ہمیں اس دوران صرف ایک بوتل پانی اور بسکٹ کے دو پیکٹس فراہم کیے گئے۔‘
گلفراز نے اپنے بھائی کو مزید بتایا کہ ان کے ساتھ کچھ بچے ایسے بھی تھے جو حادثے کے وقت بے ہوش ہو گئے تھے اور رات تک بے ہوشی کی حالت میں رہے۔
’گلفراز چونکہ عمر کے لحاظ سے ان میں بڑے تھے تو ریسکیو کے وقت انہوں نے اہلکاروں کو بتایا کہ ’سب سے پہلے ان بچوں کو لے جائیں میری فکر چھوڑ دیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بچے کمزور تھے وہ تو چیئر لفٹ سے چھلانگ لگانا چاہتے تھے۔ وہ اس قدر ذہنی اذیت کا شکار تھے کہ گویا وہ دریا میں کود کر بچ جائیں گے، پھر گلفراز نے ہاتھ پھیلا کر ان کے اردگرد حصار بنایا تاکہ یہ بچے نیچے کود نہ جائیں۔‘
نیاز محمد جو اس چیئر لفٹ میں پھنسے تھے نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اپنی زندگی میں اس طرح کا موقعہ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔‘
’میں سکول ضرور جاؤں گا، لیکن ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھنا چاہوں گا، یہ زندگی کا ایسا مرحلہ تھا کہ ہمیں زندگی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔‘
ان بچوں میں رضوان اللہ کی عمر قدرے کم تھی، تاہم ریسکیو ہونے کے بعد ان کی حالت بہتر تھی۔ اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اوپر گزری تمام مشکلات کا ذکر کیا اور بیتے کل کی ساری داستان بیان کی۔
رضوان اللہ نے بتایا کہ ’جب ہم چیئر لفٹ میں تھے تو ہم نیچے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ ہمیں نیچے صرف موت نظر آرہی تھی اور ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم موت کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔‘
نیاز محمد کے بقول ’حادثے والے دن اس کے بورڈ کے امتحان کا نتیجہ بھی آنا تھا جو اس کو گھر بحفاظت لوٹنے کے بعد معلوم ہوا۔‘
ان بچوں کے علاوہ چیئر لفٹ میں عطا اللہ، اسامہ، عرفان اللہ اور ابرار احمد شامل تھے۔ ابرار احمد کی فیملی کے افراد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم صرف اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے بچے صحیح سلامت ہمارے پاس پہنچ گئے ورنہ ہمیں تو ان کے زندہ لوٹنے کی امید ہی نہیں تھی۔‘
نیاز محمد کے والد عمر زیب نے کہا کہ ’جس وقت تک میرے بیٹے کے پاؤں زمین پر نہیں لگے تھے میری سانس رکی ہوئی تھی، جیسے ہی وہ ریسکیو ہوا تو ہمیں تسلی ہوئی کہ وہ زندہ ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران ان کے بیٹے کے امتحان کا نتیجہ بھی آیا، لیکن ان کے ذہن میں اس وقت صرف یہی بات چل رہی تھی کہ ان کا بچہ کس طرح بچ سکتا ہے؟ ’ہمیں امتحانی نتائج سے زیادہ اپنے بچے کی فکر تھی، اس وقت کوئی بھی ان نتائج کا نہیں سوچ رہا تھا۔‘
عمر زیب کے بیٹے نیاز محمد نے بتایا کہ ریسکیو ہونے کے بعد وہ اپنے گھر لوٹے تو گھر سب لوگ پریشان تھے۔ ’میرے گھر میں ہر طرف پریشانی چھائی ہوئی تھی، میں جیسے ہی گھر پہنچا تو گھر میں خوشی سے روشنیاں پھیل گئیں۔ میرا استقبال کیا گیا، اور سب نے مجھے گلے لگایا۔‘
گلفراز کے بھائی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے گھر کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ میرے والدین کا کیا حال ہونا تھا؟ آپ خود سوچیں، کہ ماں کا بیٹا موت کے تختے پر بیٹھا ہوا میں معلق ہے اور اس کی ماں اس کے واپس آنے کی راہ تک رہی ہے، تو اس وقت ماں کی کیا حالت ہوگی؟‘
ان کے بقول ’گلفراز کے لیے بھی مشکل تھا، لیکن یہاں ان کا پورا خاندان ہلکان ہو رہا تھا۔ ’ہمارے گھر میں کسی بھی فرد نے آدھی رات تک پانی کا قطرہ تک نہیں پیا، کیونکہ ایک طرح سے ہمارا بھائی پھانسی گھاٹ پر تھا بس آرڈر ہونا باقی تھا۔‘
ان کے مطابق گلفراز کے آنے سے گھر میں گویا عید ہوگئی تھی۔ ’میرا بھائی جب گھر لوٹ آیا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے عید کا سماں ہو، ہم سب گلفراز کے استقبال کے لیے گئے تھے، ہماری خوشی کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔‘