Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی دو روزہ ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

عداکت نے کہا کہ ’اب تو صرف افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہی ہو سکتی ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تحریک انصاف کے صدر پرویز الٰہی کو دو روزہ ریمانڈ پر دوبارہ پولیس کے حوالے کردیا۔ 
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اسلام آباد کے ڈیوٹی جج شاہ رخ ارجمند نے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے کی سماعت کی۔ اسلام آباد پولیس نے پرویز الہی کو عدالت کے روبرو پیش کر دیا۔ 
پولیس نے پرویز الٰہی کا پندرہ روز جسمانی ریمانڈ مانگتے ہوئے کہا کہ ملزم نے جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی کے لیے گاڑیاں اور ڈنڈے فراہم کیے۔ حملہ کرنے کے لیے لوگوں کو اسلام آباد بھجوایا۔ ان سے گاڑیاں برآمد کرنی ہیں اور نامعلوم ملزمان کے بارے میں معلوم کرنا ہے۔ 
پرویز الٰہی کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا بڑی مضحکہ خیز ہے۔ پرویز الٰہی کو گوجرانوالہ میں درج دو مقدمات میں بری کیا گیا، لیکن رہائی کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا۔ سیاسی بنیادوں پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ علیل ہیں اور ان کی کمر میں درد ہے۔ 
پرویز الٰہی نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ ’انسداد دہشت گردی عدالت سے نکلیں گے تو نیب والے گرفتار کرلیں گے۔ رات کو ایک ایس پی صاحب ہمارے پاس آئے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کو 17 سال پرانے ایک نیب کے کیس میں گرفتار کرنا ہے۔‘
عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ کیا اور کچھ دیر بعد سناتے ہوئے پرویز الٰہی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 8 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ 
پولیس کی جانب سے پرویزالہی کو لے جانے کی کوشش کی گئی تو پرویزالہی نے کمرہ عدالت سے باہر جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق جاؤں گا۔ 
دوسری جانب پرویز الٰہی کی جیل سے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری پر ان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئی جی اسلام آباد اور ڈی سی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی ہے۔ 
سردار عبدالرازق ایڈووکیٹ نے ایس ایس پی آپریشنز، ایس ایچ او تھانہ شالیمار اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے درخواست کی کہ فریقین کو طلب کر کے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالتی حکم عدولی پر توہین عدالت آرڈی نینس کی تحت سزا دی جائے۔ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے بھی احکامات جاری کیے جائیں۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کی بازیابی کی درخواست غیرموثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی جبکہ توہینِ عدالت کیس میں پولیس افسران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
بدھ کو لاہور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کی بازیابی اور توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس مرزا وقاص رؤف نے ریمارکس دیے کہ ’کل کی پیشرفت کے بعد کیا کارروائی ہو سکتی ہے، اب تو صرف افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہی ہو سکتی ہے۔‘
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ’پرویز الٰہی کو گرفتار کر کے عدالتی حکم عدولی کی گئی ہے۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ اُنہیں کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے۔‘
جسٹس مرزا وقاص رؤف نے کہا کہ نظر بندی کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس گیا وہاں سے رہائی کا حکم ہوا جس کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔
’ایف آئی آر کے معاملے پر اب دائرہ کار اسلام آباد ہائی کورٹ کا بنتا ہے۔ توہین عدالت کا معاملہ یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔‘
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ’آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں اس لیے یہاں نہیں آ سکے۔ چیف کمشنر اسلام آباد کو آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے طلب کر رکھا ہے۔‘
جسٹس وقاص رؤف نے کہا کہ ’عدالتی حکم پر عملدرآمد ہر صورت ضروری ہے۔ چیف کمشنر کو اس عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد کے پیش نہ ہونے پر انہیں توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے پرویز الٰہی کی بازیابی کی درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی جبکہ توہین عدالت کیس میں پولیس افسران کو شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
 

شیئر: