آٹھ ستمبر کو ’انڈین سینیما کی آخری مغل‘ آشا بھوسلے 90 برس کی ہو رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
’سروں کی ملکہ‘ اور ’ملکہ ترنم‘ جیسے خطابات تو لتا منگیشکر اور نور جہاں جیسی قدآور گلوکاراؤں کو مل چکے ہیں لیکن شہد سی میٹھی آواز کی ملکہ آشا بھوسلے کو کون سا خطاب دیا جائے یہ ابھی طے نہیں کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ گلوکاری کی میدان میں وہ لتا منگیشکر اور نور جہاں کی طرح مقبول خاص و عام اور پہلا نام نہیں رہیں لیکن گائیکی کے ماہرین انھیں ان دونوں سے اوپر رکھتے ہیں۔
آٹھ ستمبر کو ’انڈین سینیما کی آخری مغل‘ آشا بھوسلے 90 سال کی ہو رہی ہیں۔ آخری مغل والی بات انھوں نے خود ہی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی ہے کہ وہ ’اس فلم انڈسٹری کی آخری مغل ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اس فلم انڈسٹری کے ہر شعبے سے جڑی یادیں اور کہانیاں ہیں۔
انھوں نے وقتاً فوقتاً میڈیا کے سامنے اپنے کہانیاں دہرائی ہیں لیکن ان کے تعلق سے بھی بے شمار کہانیاں ہیں جو ان کے پرستاروں اور موسیقی کے مریدین کے ذہن میں تازہ ہیں۔
ایک بار آشا بھوسلے نے کہا تھا کہ ان دونوں بہنوں لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے ’ہندوستانی فلم انڈسٹری پر رانیوں کی طرح راج کیا‘ اور اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ یہ چھ سات دہائیوں پر محیط ان کے کریئر، ان کے گیتوں کے ریکارڈ، ان کی پزیرائی سب سے مترشّح ہے۔
ہندوستان کے سب سے کامیاب پلے بیک سنگروں میں سے ایک محمد رفیع اور ان کے علاوہ ديگر گلوکاروں اور موسیقاروں نے جہاں لتا منگیشکر کی تعریف کی ہے وہیں انھوں نے آشا بھوسلے کو سراہا ہے۔
ان کے مطابق آشا کے گانے کا رینج کسی بھی خاتون گلوکارہ میں سب سے وسیع اور متنوع تھا اور یہی بات محمد رفیع کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔
وہ زندگی کے نشیب و فراز سے انتہائی کامیابی کے ساتھ گزریں۔ انھوں نے کم عمری میں اپنی عمر سے دوگنی عمر کے شخص سے شادی کی۔
ان کی ایک بیٹی نے خودکشی کر لی جبکہ ایک بیٹا کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر انھیں داغِ مفارقت دے گیا تاہم وہ ہر صدمہ برداشت کر گئیں اور ان کے نام آشا (امید) کی طرح امید اُن میں زندہ رہی۔
ان کے تقریبا سات دہائیوں کے سفر پر نظر ڈالنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ ایک ایسی گلوکارہ ہیں جو ہندوستانی فلموں کے سنہری دور میں بھی قابل ستائش تھیں اور پھر جب مغرب کی نقل کے ساتھ دوسرا آہنگ نمایاں ہوا تو اس کے لیے بھی ان کی آواز کا سحر موجود تھا، یہاں تک کہ آج کے آئی ٹیون اور مکس و فیوژن میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔
کہتے ہیں بڑے اور تناور درخت کے سائے میں دوسرا درخت نہیں پنپتا لیکن آشا بھوسلے نے اس کہاوت کو غلط ثابت کر دکھایا۔ اگر چہ ان کا موازنہ ہمیشہ ان کی بڑی بہن لتا منگیشکر سے کیا گیا لیکن پھر بھی وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں یہاں تک کہ وہ بعض موسیقاروں کی پہلی پسند بن گئیں۔
ان کی آواز کے تنوع کو سب سے پہلے موسیقار او پی نیر نے پہچانا۔ انھوں نے ان کی آواز کے رینج کا بخوبی استعمال کیا، جس میں گہرائی اور ترنم کے ساتھ ساتھ نشہ بھی تھا۔
او پی نیر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آشا میں مخصوص صوتی صلاحیت تھی جو کہ لتا اور یہاں تک کہ شمشاد بیگم میں بھی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے اپنی بہترین دھنیں آشا کو دیں اور انھوں نے گلوکاری کی اپنی تمام تر صلاحتیں مجھے دیں۔‘
آشا بھوسلے نے او پی نیر کے لیے ساڑھے تین سو سے زیادہ نغمے گائے جس نے انھیں ان کی بہن لتا منگیشکر سے الگ پہچان دی۔ سنہ 1957 میں دلیپ کمار اور ویجنتی مالا کی فلم ’نیا دور‘ جس کی بی آر چوپڑا نے ہدایت کاری تھی اس میں آشا بھوسلے کے گیت بے حد مقبول ہوئے اور اس نے دوسرے موسیقاروں کے یہاں آشا بھوسلے کے لیے راستے کھول دیے۔
او پی نیر نے آشا بھوسلے کو اس قدر اہمیت دی کہ دونوں کے رشتے کو گلوکار اور موسیقار کے رشتے سے پرے محبت کا رشتہ کہا جانے لگا۔ ان کی ملاقات پہلی بار ایک ریکارڈنگ کے دوران ہوئی تھی۔
پھر انھوں نے آشا کو سی آئی ڈی میں بریک دیا لیکن ان کی نیا دور سب سے زیاد ہٹ ثابت ہوئی۔ لیکن انھیں پہلا بہترین خاتون گلوکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ سنہ 1966 میں فلم ’دس لاکھ‘ کے گیت ’غریبوں کی سنو، وہ تمہاری سنے گا، تم ایک پیسہ دو گے وہ دس لاکھ دے گا‘ کے لیے ملا۔
اس کے بعد وہ سب سے زیادہ فلم ایوارڈ جیتنے والی گلوکارہ بنیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لتا منگیشکر نے ایک وقت کے بعد اپنی نامزدگی منع کر دی تھی۔
جہاں آشا بھوسلے کے کریئر میں او پی نیر اور لتا منگیشکر کا جھگڑا شامل ہے وہیں محمد رفیع اور لتا کے درمیان کی تین سال کی دوری بھی شامل ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ او پی نیر نے لتا منگیشکر کے لیے ایک بھی دھن نہیں بنائی اور ان کی آواز کے بغیر ہی وہ ایک زمانے تک سب سے مہنگے موسیقار رہے۔
اسی طرح کسی بات پر محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان تلخی بڑھ گئی تھی تو تقریبا تین سال تک محمد رفیع نے تمام تر دوگانے آشا بھوسلے کے ساتھ گائے اور اس نے ان کے کریئر کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ اسی طرح لتا اور معروف نغمہ نگار اور شاعر ساحر لدھیانوی کے درمیان جب کشیدگی بڑھی تھی تو ساحر نے اپنے گیت پر لتا کے پابندی لگا دی تھی۔
آشا کی پیدائش آٹھ ستمبر سنہ 1933 کو مہاراشٹر کی سانگلی شاہی ریاست کے ایک چھوٹے سے گاؤں گور میں ہوئی اور انھوں نے سنہ 1943 یعنی 20 سال کی عمر سے اپنا کریئر شروع کیا۔ وہ ایک موسیقی اور گلوکاری والے خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد دینا ناتھ منگیشکر مراٹھی سٹیج کے اداکار کے ساتھ گلوکار بھی تھی۔
جب آشا نو سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہو گيا۔ ان کی موت کے بعد ان کے گھر والے پہلے پونے پھر، کولہاپور ہوتے ہوئے بمبئی (ممبئی) میں آباد ہو گئے۔
گنیز بک اف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق آشا بھوسلے انڈیا میں سب سے زیادہ گیتوں کو آواز دینے والی گلوکارہ ہیں۔ انھوں نے سنہ 1943 میں مراٹھی فلم ’ماجھا بل‘ کے لیے ’چلا چلا نو بلا‘ گیت گایا تھا۔ لیکن بالی وڈ جسے ہندی سینیما کہتے ہیں اس میں انھیں پانچ سال بعد سنہ 1948 میں بریک ملا جب انھوں نے چنریا فلم کے گیت ’ساون آیا‘ کو اپنی آواز دی۔
16 سال کی عمر میں آشا بھوسلے نے اپنی بہن لتا منگیشکر کے سیکریٹری گنپت راؤ بھوسلے سے شادی کر لی جو اس وقت 31 سال کے تھے۔ ان کے اہل خانہ اس شادی کے شدید خلاف تھے اس لیے آشا کو ان سب سے علیحدہ ہونا پڑا۔ انھیں گنپت راؤ سے تین بچے ہوئے لیکن ان کا سر نیم ہمیشہ کے لیے آشا کے ساتھ جڑ گیا۔
گنپت کی موت کے بعد انھوں نے آر ڈی برمن کے ساتھ دوسری شادی کی جو ان سے عمر میں چھ سال چھوٹے تھے۔ ان کے ساتھ انھوں نے بالی وڈ میں قدم جمانے والے نئے میوزک کا ساتھ دیا اور پھر وہ اپنی بہن سے بھی آگے نکل گئیں۔
کھانا بنانے کا شوق
انھیں گلوکاری کے علاوہ کھانا بنانے کا زبردست شوق رہا ہے اور کئی مواقع پر انھوں نے کہا بھی ہے کہ اگر وہ گلوکاری کے میدان میں نہ ہوتیں تو وہ اچھی کُک ہوتیں۔
بالی وڈ کے بہت سے مشاہیر ان کے کھانے کے دیوانے ہیں۔ بطور خاص ان کے ہاتھون کے کڑھائی گوشت اور بریانی کے وہ دلدادہ نظر آتے ہیں۔
طباخی سے ان کے شوق کی مثال ان کا ریستوراں کا بزنس ہے اور دبئی اور کویت میں آشاز نامی ریستوران بے حد مقبول ہے۔ ان میں روایتی ہندوستانی کھانے کے ساتھ ساتھ مغربی ہندوستان کے کھانے ملتے ہیں۔ ان کے ریستورانوں کی چین ابو ذہبی، دوحہ اور بحرین میں بھی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف انھوں نے ان ریستورانوں کی اندرونی سجاوٹ میں اپنا کردار ادا کیا ہے بلکہ انھوں نے وہاں کے شیف کو اپنے حساب سے کئی ماہ تک تربیت بھی دی ہے۔
بین الاقوامی شہرت کے حامل شیف رسل سکاٹ نے برطانیہ کے لیے آشا برانڈز کے حقوق خرید لیے ہیں اور وہ پانچ سالوں کے دوران 40 ریستوراں کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی گلوکار عدنان سمیع جب دس سال کے تھے تو آشا بھوسلے نے انھیں گلوکاری میں کریئر بنانے کی ترغیب دی تھی۔ انھیں گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا جا چکا ہے۔
اگر آپ سے آج پوچھا جائے کہ آشا کا کون سا گیت آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے تو شاید بتا پانا مشکل ہو لیکن ان کے دس گیت تو آپ بتا ہی سکتے ہیں اور پھر آپ خود اس میں موجود تنوع کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
انڈیا کے معروف شو ’دی للن ٹاپ‘ کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایک میوزک ریکارڈر نے انھیں اور کشور کمار کی آواز کو ’بیکار‘ کہہ کر مسترد کر دیا تھا اور انھیں وہاں سے جانا پڑا تھا لیکن پھر جب ان کی پہچان بن گئی تو وہی ریکارڈر نے ان کے گیت کو ریکارڈ کرنا اپنی خوش قسمتی گردانا۔ آشا نے کہا کہ ’یہ وقت وقت کی بات ہے۔ وہ وقت ان کا تھا اور پھر ہمارا وقت آیا۔‘
آج 90 سال کی عمر میں انھوں نے پروفیشنل گلوکاری تو چھوڑ دی ہے لیکن گاتی اب بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بے سُری کبھی نہیں ہوئیں چاہے گیت کسی بھی قسم کا ہو۔ انھیں ان کی بہن کی طرح انڈیا کا سب سے باوقار شہری ایوارڈ ’بھارت رتن‘ تو نہیں مل سکا لیکن انھیں باقی کئی ایوارڈز مل چکے ہیں تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا کبھی انھیں بھی ’بھارت رتن‘ دیا جائے گا؟