سکھ رہنما کا قتل: انڈیا کی شہریوں کو کینیڈا کے کچھ علاقوں کا سفر نہ کرنے کی ہدایت
کینیڈا کے سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم اس معاملے پر امریکہ کے ساتھ مل کر باریک بینی سے کام کر رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ انڈیا نے اپنے شہریوں کو کینیڈا کے کچھ علاقوں کا سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو انڈین وزارت خارجہ نے ایک بیان میں سفارتی جھگڑے کا واضح طور پر ذکر کیے بغیر کہا کہ وہ کینیڈا میں ’سیاسی طور پر قابل مذمت نفرت انگیز جرائم اور مجرمانہ تشدد‘ کی وجہ سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہے۔
وزارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دھمکیوں نے خاص طور پر انڈین سفارت کاروں اور انڈین کمیونٹی کے ان حصوں کو نشانہ بنایا ہے جو انڈین مخالف ایجنڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘
’لہذا انڈین شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا کے ان علاقوں اور ممکنہ مقامات کا سفر کرنے سے گریز کریں جہاں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔‘
اس سے قبل کینیڈا کے سینیئر سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کا ملک سکھ رہنما کے قتل میں انڈین ایجنٹ کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ مل کر ہر پہلو سے جائزہ لے رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کینیڈا کے سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم اس معاملے پر امریکہ کے ساتھ مل کر باریک بینی سے کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے پاس موجود شواہد مناسب وقت پر شیئر کیے جائیں گے۔
کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہوئے ایک اعلٰی انڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا تھا۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈین انٹیلی جنس الزامات کا جائزہ لے رہی ہے۔
انڈیا نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے جوابی اقدام کے طور پر کینیڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے پانچ دن کی مہلت دی تھی۔
اس تنازع نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو دھچکا پہنچایا ہے جو برسوں سے کشیدہ ہیں کیونکہ نئی دہلی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر ناخوش ہے۔
منگل کو امریکی حکام نے کہا تھا کہ وہ کینیڈا کی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم اس معاملے پر اپنے کینیڈین ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ہمیں الزامات کے حوالے سے کافی تشویش ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ضروری ہے کہ مکمل تحقیقات ہو اور ہم انڈین حکومت سے اس تحقیقات میں تعاون کرنے کی درخواست کریں گے۔‘