Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حماس کو پسپا کرنے کے لیے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شدّت، 11 سو سے زائد ہلاکتیں

سات اکتوبر کو حماس نے اچانک اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جنگ کا اعلان کیے جانے کے بعد پیر کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر بمباری میں شدّت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کشیدگی کے نتیجے میں اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل میں کم از کم 700 جبکہ غزہ میں 400 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں
فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل سے 130 سے ​​زائد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے۔
اسرائیلی افواج حماس کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے تیسرے روز بھی جنگ لڑ رہی ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی اسرائیل میں ’سات سے آٹھ‘مقامات پر حماس کے خلاف لڑ رہی ہے۔

غزہ میں یرغمال اسرائیلیوں کا معاملہ نیتن یاہو کے لیے ایک سیاسی جال؟

حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں درجنوں اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کو یرغمال بنانے کے بعد ملک میں کسی بھی بحران سے زیادہ اسرائیلوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے لیے بھی ایک مشکل سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق عسکریت پسند تنظیم حماس نے  ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شیلت کو یرغمال بنایا تھا جس پر برسوں تک اسرائیل میں کافی غم و غصہ پایا گیا۔ گیلاد شیلت کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔
اس مرتبہ غزہ کے حماس کے حکمران سنیچر کو ایک اچانک حملے میں درجنوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
عسکریت پسند تنظیم حرکت الجہاد اسلامی فلسطین نے کہا ہے کہ صرف اس نے 30 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا ہے۔
اسرائیلی شہریوں کے یرغمال بنائے جانے کے بعد نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے جو پہلے ہی حماس کے حملے میں سات سو زیادہ اسرائیلیوں کی ہلاکت کا جواب دینے کے لیے شدید دباؤ میں ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے حماس کے خلاف فوج کی پوری طاقت کے استعمال کے عزم کا اظہار کیا تھا جس نے غزہ کی پٹی میں نامعلوم مقامات پر پر رکھے گئے اسرائیلی شہریوں کی تحفظ کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کا پتا لگانے میں چیلنجز کا سامنا ہو گا کیونکہ گیلاد شیلت کے معاملے میں بھی اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ناکام رہی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی مسلسل فضائی نگرانی ہو رہی ہے اور اس کے ارگرد اسرائیل کی زمینی اور بحری افواج بھی موجود ہیں تاہم تل ابیب سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر یہ علاقہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے واضح نہیں۔

اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں غزہ میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوو امدرور کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ اسرائیلی شہریوں کو کہاں رکھا گیا ہے۔ لیکن یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کا معاملہ اسرائیل کو اس وقت تک غزہ پر بمباری سے نہیں روکے گا جب تک حماس کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔ ‘
اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم بیتسلم کے مطابق حماس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید تقریباً ساڑھے چار ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے قید کا معاملہ شاید اتنا ہی جذباتی ہے جتنا کہ اسرائیلیوں کے لیے ہے۔ 1967 کے مشرق وسطیٰ کے جنگ میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد سے تقریباً سات لاکھ 50 ہزار فلسطینی اسرائیل کی جیلوں کا رخ کر چکے ہیں۔ زیادہ تر فلسطینیوں نے یا تو اسرائیل کی جیلوں میں وقت گزارا ہے یا کسی کو ایسے فرد کو جانتے ہیں جو جیل میں ہو۔
فلسطینی اتھارٹی کی خودمختار حکومت جس کے پاس مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام ہے، اپنے بجٹ کا تقریباً آٹھ فیصد جیل میں قید افراد یا ان کے اہل خانہ کی مدد کے لیے استعمال کرتی ہے۔
فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے ڈائریکٹر خلیل شقاقی کا کہنا ہے کہ کسی بھی قیدی کی رہائی حماس کے لیے بہت بڑی بات ہو گی جس سے اس کی پوزیشن بھی مضبوط ہو جائے گی اور فلسطینی اتھارٹی کی طاقت اور قانونی حیثیت مزید کم ہو جائے گی۔

2008 میں گیلاد شیلت کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرے ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے پی)

تاہم یروشلم میں ہیبرو یونیورسٹی کے سیاسی امور کی ماہر گائل تالشیر کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ موجودہ حکومت فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت میں موجود انتہا پسند غزہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔
نیتن یاہو کی حکومت نے اپوزیشن کے سربراہ لائر لاپڈ کی جانب سے ہنگامی قومی اتحاد کی حکومت بنانے کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
گائل تالشیر کے مطابق پیشکش مسترد ہونے سے واضح ہو گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی انتہا پسند قوم پرست حکومت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔

شیئر: