Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ کو نسل کشی کا سامنا؟ فلسطینی سفیر کا فرینکلی سپیکنگ کو انٹرویو

فلسطینی سفیر کے مطابق غزہ میں دو لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ فوٹو: عرب نیوز
فلسطین کے ایک اعلٰی سفارتکار نےاسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے اقدامات نہ اٹھائے تو غزہ کو ’مکمل تباہی‘ اور ’نسل کشی‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ سے بات کرتے ہوئے جاپان میں تعینات فلسطینی سفیر ولید علی صیام نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کے گھروں اور روزگار کو تباہ کر رہا ہے اور انہیں اُس فعل کی سزا دے رہا ہے جس میں ان کا عمل دخل بھی نہیں ہے
’یہ اجتماعی سزا ہے۔ یہ جنگی جرم ہے۔ آپ پوری آبادی کو سزا نہیں دے سکتے کیونکہ اُس آبادی کے ایک مخصوص حصے نے اسرائیل کے ساتھ کچھ غلط کیا ہے۔‘
پروگرام کی میزبان کیٹی جینسن سے بات کرتے ہوئے سفیر نے بتایا کہ ان کا اپنا خاندان بھی اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ میں پھنسا ہوا ہے اور آج پیر کی صبح ان کا گھر بمباری میں تباہ ہو گیا ہے۔ 
’لیکن یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جس سے میرے لوگ گزر رہے ہیں اور سینکڑوں کے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔‘
8 اکتوبر سے غزہ اسرائیلی میزائلوں اور توپوں کی زد میں ہے جب اس سے ایک دن قبل حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا اور اس کے سینکڑوں فوجیوں اور شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ متعدد کو یرغمال بنانے کے علاوہ اسرائیلی شہروں پر راکٹ بھی برسائے۔
خیال رہے کہ سنی مسلک سے وابستہ گروپ حماس اخوان المسلمون کی صفوں سے ابھر کر سامنے آیا تھا اور اس کو ایران اور لبنان کی حزب اللہ جماعت کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ آپریشن الاقصیٰ فلڈ فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور یروشلم میں مسجد الاقصیٰ کی بےحرمتی کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔

اسرائیلی بمباری کے باعث غزہ کو مکمل تباہی کا سامنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

فلسطینی سفیر ولید علی صیام نے بتایا کہ ملبے سے بھری ہوئی سڑکوں کی وجہ سے رسائی مشکل ہو گئی ہے اور اسرائیلی بمباری میں مزید شدت آ گئی ہے، یہ وجہ ہے کہ اپنا گھر چھوڑنے کے بعد سے ان کا خاندان محفوظ جگہ تلاش کرنے سے قاصر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محفوظ جگہ کی تلاش میں ان کی فیملی ایک ہوٹل میں گئی لیکن اسرائیلوں کے کہنے پر انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا ہے۔
’شاید اسرائیل نے اسے بھی نشانہ بنانا ہو۔ اب وہ (فیملی) ایک گلی سے دوسری میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔‘
انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا ’ہم نے اتنے سارے دوستوں کو کھو دیا اور فیملی کے کچھ افراد بھی کھو گئے۔ لیکن میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ یہ سب ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔‘
سفیر ولید علی صیام نے کہا کہ فلسطین کے بجائے اسرائیل کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
’اسرائیل دنیا کے دس طاقتور ممالک میں سے ایک ہے۔ اور امریکہ سب سے زیادہ طاقت رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ اور یہ دونوں غزہ کی 22 لاکھ آبادی اور نام نہاد اسلامی جنگجوؤں یا حماس کے 30 سے 40 ہزار جنگجوؤں   کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ انتہائی غیرمتناسب ہے کہ ایک لاکھ فوجی 50 ہزار کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں انسانی بحران کا سامنا ہے۔ نہ بجلی ہے، نہ خوراک، نہ پانی اور نہ ہی ادویات ہیں۔ دو لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس وقت ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا فلسطینی اتھارٹی شہریوں کے اغوا اور قتل کی مذمت کرتی ہے،  فلسطینی سفیر کا کہنا تھا ’ہم تمام شہریوں کی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرتے ہیں۔ چاہے وہ فلسطینی ہوں یا اسرائیلی۔ آج، کل اور ہمیشہ کے لیے۔‘

اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اسرائیل نے غزہ پر بمباری کے علاوہ غزہ کے ساتھ سرحد پر فوجیں بھی تعینات کر رکھی ہیں اور شہریوں کو جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے کا کہا ہے جبکہ علاقے میں بجلی اور پانی کی سہولت منقطع کر دی ہے اور خوارک و ادویات کی ترسیل بھی بند کر دی ہے۔
اسرائیل جنگی طیاروں نے گنجان آباد علاقوں میں اندھا دھند بمباری کے دوران شہری املاک کو بھی نہیں چھوڑا۔
اقوام متحدہ کے حکام نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ کے اصولوں کا احترام کرے جن کا تقاضہ ہے کہ شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے اور اجتماعی سزا کے اقدام کو قابل مذمت قرار دیا جائے۔
فلسطینی سفیر سے جب اس تنازعے کے نتائج سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’بدقسمتی ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری نے جلد از جلد مداخلت نہ کی تو غزہ میں مکمل تباہی اور شہریوں  نسل کشی ہو گی۔
برسوں کی موثر پابندیوں اور 2007 سے حماس کے زیر اقتدار غزہ کی آبادی جو اسرائیل کے ساتھ مسلح تبادلوں کے دوران بمباری کی زد میں رہتی ہے، وہ بالکل بھی موجودہ محاصرے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
صیام کے خیال میں حماس کے عروج سے اسرائیلی بیانیے کو فائدہ پہنچا ہے جبکہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچا۔
’میں فلسطینی حکومت اور فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتا ہوں۔ مجھے اپنے لوگوں کی نمائندگی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہماری جدو جہد جائز ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو 75 سال سے ایک خودمختار ریاست کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور ہم اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہر صورت اور رنگ میں لڑائی جاتی رکھیں گے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’جو کچھ 7 اکتوبر کو ہوا، میرے لیے اس کی تاریخ 1948 تک جاتی ہے۔ اس کی شروعات 7 اکتوبر سے نہیں ہوئی۔‘

 مختلف مغربی ممالک میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

فلسطینی سفیر سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں ثالث کا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے، تو اس پر انہوں نے جواب دیا ’امریکہ ہمارے اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے کسی بھی مذاکرات میں شریک نہیں ہو سکتا۔۔۔ میرے خیال میں جاپان کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے، نہ ہی امریکہ یا کسی اور مغربی ملک کو۔‘
انہوں نے اپنے اس موقف کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’فرانس، برطانیہ اور چند دیگر ممالک نے بیانات جاری کیے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ فلسطینی بھی انسان ہیں۔۔۔۔ہم انسان ہیں اور ہماری ایک جائز جدو جہد ہے۔‘

شیئر: