Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا: مصر

السیسی کے مطابق ’فلسطینیوں کو مصر بھیجننے سے صحرائے سینا اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا مرکز بن جائے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ ’فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔‘
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مصری صدر نے بدھ کو مزید بتایا کہ ’دہشت گردوں کے ساتھ نمٹنے تک‘ فلسطینیوں کو اسرائیل کے صحرائے نیگیو میں جانے کی اجازت دی جائے۔
مصری صدر نے ’فلسطینیوں کی غزہ سے مصر جبری بے دخلی‘ کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ’فلسطینیوں کی مغربی کنارے سے اردن کی طرف جبری بے دخلی‘ کی مثال قائم ہوجائے گی۔
صدر السیسی جو مہاجرین کی غزہ سے مصر کے صحرائے سینا میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے مطالبے کو مسترد کرچکے ہیں کا کہنا ہے کہ اس سے ’فلسسطینی ریاست‘ کے قیام کا مقصد ’ختم‘ ہو جائے گا۔‘
انہوں نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تو میں مصری عوام سے کہوں گا کہ وہ باہر گلیوں میں نکل کر اس تجویز کو مسترد کرنے کا اظہار کریں۔‘
مصری صدر کا کہنا تھا کہ ’اگر اسرائیل فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتا ہے تو وہ فلسطین کے مسلح گروپوں کے خلاف اپنی کارروائی مکمل ہونے تک انہیں (فلسطینی مہاجرین کو) اپنے صحرائے نیگیو میں بھیج سکتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی مہاجرین کو مصر بھیجنا خطرناک ہوگا، کیونکہ صحرائے سینا اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا مرکز بن جائے گا۔‘

’رفح کراسنگ پوائنٹ‘ پر امدادی قافلے چھ روز سے سرحد کُھلنے کے منتظر ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

صدر السیسی کا کہنا تھا کہ مصر نے غزہ کے ساتھ سرحد پار کرنے کا واحد راستہ (رفح کراسنگ پوائنٹ) جو کہ اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں کو ’بند نہیں کیا۔‘ انہوں نے اس راستے کے نہ کُھلنے کی وجہ اسرائیلی بمباری کو قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ زمین پر ہونے والی پیش رفت اور بارڈر کراسنگ کے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی مسلسل بمباری نے امدادی کارروائیوں کو روک دیا ہے۔‘
واضح رہے کہ ’رفح کراسنگ پوائنٹ‘ کے مصری علاقے میں امدادی قافلے چھ روز سے سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔
یہاں اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر سے حماس کے اچانک حملے کے بعد چار مرتبہ بمباری کی جا چکی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے کی گئی بمباری سے فلسطینی علاقوں میں کم سے کم 1400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

شیئر: