Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کے ’غلط ِبل‘، کیا لاکھوں صارفین کو رقم واپس مل سکے گی؟

اضافی بلوں کے خلاف جماعت اسلامی کی سربراہی میں اگست اور ستمبر میں ملک گیر احتجاج ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں بجلی کمپنیوں کی نگرانی اور بجلی کے نرخ متعین کرنے کے ذمہ دار ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے تفتیش کے بعد انکشاف کیا ہے کہ ملک میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں نے لاکھوں صارفین کو ان کے استعمال سے زیادہ بجلی کے غلط بل بھیج کر انہیں نقصان پہنچایا ہے۔
یہ تحقیق اس وقت شروع کی گئی جب رواں سال جولائی اور اگست میں بڑی تعداد میں صارفین نے زیادہ بل آنے کی شکایات نیپرا میں درج کروائیں۔
شکایات اور عوامی سطح پر احتجاج کے بعد نیپرا نے تین سینیئر اراکین اور علاقائی دفاتر کے سربراہان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں طے شدہ اوقات سے زائد دنوں میں استعمال ہونے والے یونٹس کے معیار کے مطابق غلط بلنگ کی اور کئی علاقوں میں خراب میٹر ہونے کی وجہ سے بھی صارفین کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر علاقوں میں میٹر ریڈنگ تجویز کردہ آلے کی بجائے محض سمارٹ موبائل فون کی مدد سے لی جا رہی ہے اور اس وجہ سے بھی بلوں میں ردوبدل کا امکان ہوتا ہے جو بدعنوانی کے خدشے کا باعث ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ زائد المیعاد اور غلط بلنگ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی، اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی اور جن صارفین نے زیادہ رقم ادا کی ہے ان کی رقم واپس دلوانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
 رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ بجلی کمپنیوں کو میٹر ریڈنگ کے لیے تجویز کردہ مخصوص آلہ خریدنا چاہیے کیونکہ اس آلے کے ذریعے کی جانے والی میٹر ریڈنگ میں رد و بدل کا امکان نہیں ہوتا۔

کیا زیادہ بل ادا کرنے والے صارفین کو ان کی رقم واپس مل سکے گی؟

اس بارے میں نیپرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔
نیپرا کے ترجمان ساجد اکرم نے اُردو نیوز کو بتایا کہ نیپرا حکام نے غلط بلنگ میں ملوث کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے لیے نوٹس جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اس معاملے کے متعلق آگاہ کریں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ وہ کمپنیاں اس پر عملدرآمد کرتی ہیں یا نہیں اور اس پر مزید کیا کارروائی کی جا سکتی ہے۔

حکام کے مطابق دور دراز علاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم توانائی سیکٹر کے ماہرین کا خیال ہے کہ صارفین کی طرف سے ادا کیے گئے زیادہ بلوں کی رقم انہیں واپس نہیں مل سکے گی۔
توانائی امور کے تجزیہ کار علی خضر کے مطابق پاکستان میں اوور بلنگ کا مسئلہ نیا نہیں ہے لیکن رواں سال جولائی اگست میں زیادہ بل بھیجے گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا ہے۔
ان کے خیال میں زیادہ بل ادا کرنے والے لوگوں کو ان کے پیسے واپس ملنے کا امکان نہیں ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ صارفین کو ان کے پیسے واپس مل سکیں گے، اور کون یہ پیسے واپس کرے گا؟ نہ ہی حکومت اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں۔ مشکل ہے کہ لوگوں کو یہ رقم واپس ملے۔

گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیدنگ کی وجہ سے روزگار متاثر ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رقم کی واپسی کے معاملے سے ہٹ کر علی خضر نے نیپرا کی تحقیقاتی رپورٹ کے معیار پر بھی انگلی اٹھائی ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے لوگوں کی تعداد کے نمونے پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی تعداد صارفین کی تعداد کے لحاظ سے مناسب تھی کہ نہیں۔
علی خضر کے مطابق اس رپورٹ کے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ مخصوص حلقے اس کے ذریعے بجلی کمپنیوں کے گورننگ بورڈز میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
صارفین کو بھجے گئے غلط بلوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا، نیپرا
نیپرا میں سینٹرل پاور جنریشن کمپنی بلاک دو کے ٹیرف کے حوالے سے سماعت کے دوران صارفین کو بھیجے گئے غلط بلوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
چیئرمین نیپرا وسیم مختار کی سربراہی میں اتھارٹی نے سماعت کی اور کہا گیا کہ صارفین کو بھجے گئے غلط بلوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔
مزید کہا گیا کہ اتھارٹی غلط بھیجے گئے بلوں کے معاملے کو غور سے دیکھے گی، اور اتھارٹی تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف قانونی کاروائی کرے گی۔
تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ایک عوامی سماعت اس کے بعد فیصلہ ہوگا، نیپرا اتھارٹی
ڈسکوز میں میٹر کی دستیابی بہت بڑا ایشو ہے،  ڈسکوز کے بلنگ کا طریقہ کار درست نہیں ٹیکنالوجی ضروری ہو گئی ہے۔‘

شیئر: