Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رام مندر کی تعمیر، مسلمان اور مقامی شہری ’نظرانداز‘

رام مندر کو آئندہ سال جنوری میں عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا جائے گا (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں رہنے والے شمالی شہر ایودھیا میں چھ ارب ڈالر کی لاگت سے ایک بڑا مندر تعمیر کیا جا رہا ہے جس کا افتتاح جلد ہی متوقع ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق رام مندر کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 22 جنوری کو اسے عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔
ایودھیا کی انتظامیہ نے تقریباً 45 لاکھ سیاحوں کی ماہانہ آمد کا تخمینہ لگایا ہے جو شہر کی 30 لاکھ کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
ایودھیا 1992 میں اُس وقت بین الاقوامی سُرخیوں میں آیا تھا جب سخت گیر ہندوؤں نے یہ کہتے ہوئے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا کہ اس مسجد کی تعمیر ایک قدیم ہندو مندر کی جگہ پر ہوئی تھی۔
اس واقعے نے ملک گیر فسادات کو جنم دیا جس میں دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
کئی دہائیوں کی قانونی جنگ کے بعد انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور  مسجد کی جگہ پر مندر بنانے کی اجازت دی تھی۔
ریاست اترپردیش میں 18 کروڑ ڈالر کے اس منصوبے کے لیے فنڈنگ کی گئی ہے۔ انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی اس مندر کی تعمیرِ نو کو قومی مہم کا درجہ دیتے ہوئے اربوں خرچ کر رہی ہے جس کے تحت ایک نیا بین الاقوامی ایئرپورٹ، پارکس، سڑکیں اور پُل بنائے جا رہے ہیں۔
ہندو پنڈت راجندر داس نے بتایا کہ مندر جس کے بارے میں عقیدت مندوں کا خیال ہے کہ اسے بھگوان رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا ہے، اس سے ہر ایک کو فائدہ ہو گا۔ اس کی تعمیر نے ریئل سٹیٹ کے شعبوں کو اتنا فروغ دیا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔‘
64 سالہ راجندر داس کا کہنا تھا کہ ’غیر ملکی سیاح اور انڈیا کے کونے کونے سے لوگ آئیں گے۔‘
روئٹرز نے درجنوں رہائشیوں اور کاروباری افراد کا انٹرویو کیا جنہوں نے بتایا کہ مندر ایودھیا میں ’نئی سرمایہ کاری اور خوشحالی کا سیلاب‘ لا رہا ہے۔
تاہم مقامی افراد جن کی املاک کو تعمیرِنو کے دوران منہدم کیا گیا، انہوں نے زمین کی بڑھتی قیمتوں اور کم معاوضے کی وجہ سے بےگھر ہونے کا شکوہ کیا ہے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنایا تھا  (فوٹو: اے ایف پی)

شہر کی تین لاکھ 50 ہزار نفوس پر مشتمل مسلمان آبادی میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں مندر کی تعمیر سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاتھی نے اس بات کی تردید کی کہ مسلمان شہریوں کو تنہا چھوڑا جا رہا ہے۔ ’اگر سڑکیں چوڑی ہو رہی ہیں تو مسلمان بھی ان کا استعمال کریں گے۔ اگر بجلی کی سپلائی ٹھیک ہوتی ہے تو مسلمانوں کو بھی فائدہ ہو گا۔‘
انڈیا کے بڑے پراپرٹی ڈویلپرز کو ایودھیا میں اپنے لیے ’اہم مواقع‘ نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایودھیا میں بہت سے نئے ہوٹلز چلانے کا کروبار کرنے والے انڈیا کے ٹاٹا گروپ اور امریکی گروپ ریڈیسن 80 کمروں کی پراپرٹی تعمیر کر رہے ہیں۔
’دا ہاؤس آف ابھینندن لودھا‘ شہر میں سپا اور پول کے ساتھ ایک رہائشی پروجیکٹ بھی تعمیر کر رہا ہے۔
2019 کے حکم میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ حکام کو مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے والے اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کو ایک نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ’نمایاں‘ جگہ پر ’مناسب‘ زمین مختص کرنی چاہیے۔
بورڈ کو مندر سے 15 میل دور، شہر کی سرحد کے بالکل ساتھ زمین دی گئی تھی۔
جب روئٹرز نے مسجد کے لیے مختص جگہ کا دورہ کیا تو آس پاس کے پرسکون علاقے میں کوئی تعمیراتی کام جاری نہیں تھا۔
ایک دیوار پر ایک پوسٹر لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’ایک شاہکار تخلیق ہو رہا ہے۔‘
بورڈ کی ایودھیا ضلعی کمیٹی کے صدر اعظم قادری نے کہا کہ ’ہر کسی کی توجہ مندر پر مرکوز ہے۔ مساجد کے فروغ پر بھی توجہ دینی چاہیے۔‘

ندو ہجوم نے یہ کہتے ہوئے بابری مسجد کو مسمار کر دیا کہ یہ ایک قدیم ہندو مندر کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ ’مسلمانوں کو اب بھی شہر میں وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل نہیں ہے اور یہاں تک کہ اگر کمیونٹی نے ہوٹل بنانے کی کوشش کی تو ہندو مذہبی سیاح شاید وہاں نہ آئیں۔‘
یاد رہے کہ بابری مسجد کا مقدمہ 1961 میں سنی وقف بورڈ نے ایودھیا میں 277 ایکڑ اراضی کی ملکیت کے لیے کیا تھا جس پر 16ویں صدی سے بابری مسجد تعمیر تھی۔
سخت گیر ہندو یہاں مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی۔
1980 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مضبوط ہونا شروع ہوئی اور اس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی جدوجہد تیز کر دی تھی۔
2010 میں انڈیا کی ایک ہائی کورٹ نے بابری مسجد کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا لیکن دونوں فریقین اس فیصلے پر راضی نہیں تھے۔
لہٰذا 2011 میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے اس فیصلے کے خلاف انڈین سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا اور یہ کیس تب سے سپریم کورٹ میں سنا جا رہا تھا جس کا فیصلہ 2019 میں ہوا۔

شیئر: