Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنہ 1970 کے وہ انتخابات جن کے بعد ملک ایک نہ رہ سکا

ایوب خان نے گھر جاتے وقت اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا مناسب سمجھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں عام انتخابات میں اب دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن ان کے بعد ملکی حالات میں کوئی بہتری آنے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔ 
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت کئی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت ہے۔ پی ٹی آئی سے تو اس کا انتخابی نشان بلا بھی چھن گیا ہے۔  
پاکستان میں یہ سب پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ ہر انتخابات میں یہی کہانی نظر آتی ہے، کسی جماعت کو ’قبولیت‘ کا پروانہ ملتا ہے تو کوئی ’راندہ درگاہ‘ ٹھہرتی ہے۔ 
لیکن ایک انتخابات ایسے بھی تھے جن کا نتیجہ ملک کا ٹوٹنا نکلا۔ اس وقت کی فوجی حکومت (یحییٰ خان) اور ایک سیاسی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) نے انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت (عوامی لیگ) کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اکثریت، اقلیت سے تنگ آ کر علیحدہ ہو گئی۔ 
پاکستان بننے کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے ساتھ معاندانہ رویہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا جس کی ابتدا اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے سے ہوئی۔ اس کے بعد آئینی اور سیاسی بحران، فیصلہ سازی میں بنگالیوں کو نظرانداز کرنا اس بحران کو بڑھاتا چلا گیا لیکن اس بےاعتمادی کے تابوت میں آخری کیل فوجی حکمرانوں نے ٹھونکے۔ 
تقسیم کے بعد عام بنگالیوں کے ساتھ ملک کے باقی لوگوں کا رویہ کیسا ہوتا تھا، اس کی ایک مثال سینیئر صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خان نے اپنی کتاب ’جیون ایک کہانی‘ میں ان الفاظ میں بیان کی:
’بندرگاہ سے میرے چچا نے ایک ٹیکسی لی۔ ٹیکسی کیا تھی، ایک بڑی خستہ حال سی کار تھی۔ ٹیکسی والے نے کہا، دس روپے لیں گے۔ میرے چچا اس پر برس پڑے۔ ’’ابے لوٹ مچی ہے کیا؟ تیرے باپ نے دس روپے کبھی دیکھے تھے؟ پاکستان کیا بنا ہے، اندھیر ہو گیا‘‘ ابھی ان کی ڈانٹ ڈپٹ جاری تھی کہ اس نے بھی کچھ کہہ دیا۔ بس پھر میرے چچا کے غصے کا عالم مت پوچھیے۔ یہ بالکل ایسے تھا جیسے ان کے کسی غلام نے ان کو جواب دے دیا ہو۔ 
میرے چچا بندرگاہ کی نگرانی کے محکمے واچ اینڈ وارڈ کے ایک انسپکٹر صاحب کو لے آئے، جو اتفاق سے ہماری بستی کے تھے۔ آپ یقین مانیں، انہوں نے آتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس ٹیکسی والے کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ لگایا اور میرے چچا سے مخاطب ہوئے ہوئے کہا، ’’ان لوگوں سے شرافت برتنا ہی بیوقوفی ہے۔ یہ --- جوتے کے آدمی ہیں، ۔۔۔ میر جعفر کی اولاد۔ ساری زندگی ہندوؤں کی غلامی کرتے رہے، رات کو سوئے اور صبح اٹھے تو آزادی مل گئی۔ یہ کیا جانیں آزادی کیا ہوتی ہے!‘‘ 
ایک بنگالی کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے، اس کے بارے میں یہ میرا پہلا سبق تھا۔‘

علی احمد خان اور حسن ظہیر نے اپنی اپنی کتاب میں مشرقی پاکستان کے حالات کی تفصیلی عکاسی کی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سنہ 1970 کے انتخابات 

ایوب خان 11 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے کے بعد اب فوج کی حمایت سے بھی محروم ہو چکے تھے لیکن گھر جاتے وقت بھی انہوں نے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا مناسب سمجھا۔ اور یوں 25 مارچ 1969 کو یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ سنہ 1962 کا آئین معطل کر دیا گیا اور پورا ملک ایک بار پھر خاکی سایوں کے زیرِاثر آ گیا۔ یہ بیک ٹو بیک مارشل لا تھا۔ 
اسی برس 28 نومبر کو جنرل یحییٰ خان نے ایک نئے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے تحت پانچ اکتوبر 1970 کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ اے آر کارنیلس جیسا عالی دماغ یحییٰ خان کا وزیر قانون تھا۔ 
اس ایل ایف او کے تحت ون یونٹ ختم کرنے، پیرٹی کا قانون ختم کرتے ہوئے ایک آدمی ایک ووٹ اور نئی اسمبلی کی جانب سے آئین بنانے جیسے اعلانات کیے گئے، لیکن یہ ایل ایف او ایک کنفیوژ دستاویز تھی اور اس میں کئی سقم تھے۔ 
اس حوالے سے ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی ڈاکٹر جعفر احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) یحییٰ خان کی غلطی تھی کیونکہ یہ آئینی اسمبلی کے انتخابات تھے لیکن نئی اسمبلی آئین کیسے بنائے گی اس کا ایل ایف او میں ذکر نہیں تھا۔ عوامی لیگ صرف اپنی اکثریت کی بنا پر آئین بنا سکتی تھی جو پیپلز پارٹی کو قبول نہیں تھا اور دنیا میں کوئی بھی آئین باہمی مشاورت اور سب کی رضامندی سے ہی بنتا ہے۔‘
اب جبکہ انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا تو سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی مہم شروع کر دی تھی۔ پنجاب اور سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کا زور تھا تو مشرق پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا طوطی بولتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسا وفاقی نظام چاہتے تھے جس میں قابل عمل علاقائی خود مختاری ہو۔ (فوٹو: ایکس)

’بغاوت زمین پر کم اور بنگالیوں کے ذہن میں زیادہ تھی‘

حسن ظہیر کی کتاب ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ کے مطابق سنہ 1970 کی انتخابی مہم کے دوران مشرق پاکستان میں دو بڑی سیاسی قوتیں تھیں۔ ان میں سے ایک عوامی لیگ تھی جس کی قیادت مجیب الرحمن کے پاس تھی اور دوسری بائیں بازو کی جماعتیں تھیں جن کی سب سے توانا آواز مولانا بھاشانی تھے۔ 
’عوامی لیگ نے شہری اور دیہاتی مڈل کلاس طبقے کو مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور فوجی اور سول بیوروکریٹس کی بالادستی سے آزادی کے نام پر متحرک کیا ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد علاقائی خود مختاری تھی اور یہ وہ سیاسی طور پر ہی حاصل کرنا چاہتی تھی۔‘
قومی اسمبلی کے یہ انتخابات تمام تر سیاسی اتار چڑھاؤ کے بعد بالآخر سات دسمبر 1970 کو ہو ہی گئے لیکن اس کے نتائج سب کے لیے حیران کن تھے۔  
عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 سیٹیں جیت لی تھیں جبکہ مغربی پاکستان کی 138 سیٹوں میں سے 81 پیپلز پارٹی کے نام رہی تھیں۔ عوامی لیگ کو اب اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی۔ 
اس زمانے میں مشرق پاکستان میں تعینات رہنے والے کرنل نادر علی نے رونامہ ایکسپریس کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’مشرقی پاکستان میں بغاوت زمین پر کم اور بنگالیوں کے ذہن میں زیادہ تھی جس کا اظہار انہوں نے الیکشن میں مجیب کو ووٹ دے کر کر دیا تھا۔‘

جرنیلوں کا خوف

ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق ’یحییٰ خان کی ایجنسیوں نے انہیں فیڈ کیا تھا کہ کوئی جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی اور وہ خود کو مستقبل میں کنگ میکر کی پوزیشن میں دیکھ رہے تھے۔‘

عوامی لیگ کی جیت سے فوجی حکومت اور باقی سرکاری ملازمین حقیقتاً خوفزدہ تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حسن ظہیر نے اپنی کتاب ’مشرق پاکستان کی علیحدگی‘ میں فوجی جنتا کی پریشانی کے حوالے سے لکھا:
’سینیئر جنرلز صدمے میں تھے اور ایک کور کمانڈر نے نتائج کو تباہ کن قرار دیا۔ عوامی لیگ کی فوج کے بارے میں جو سوچ تھی اسے انہوں نے اپنے ذہنوں پر بہت زیادہ سوار کر رکھا تھا۔‘
عوامی لیگ کی جیت سے فوجی حکومت اور باقی سرکاری ملازمین حقیقتاً خوفزدہ تھے۔ ان کے اس خوف کا ذکر سابق ڈی جی آئی ایس پی آر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ میں کرتے ہوئے لکھا کہ ’عوامی لیگ درحقیقت پولنگ سے پہلے ہی انتخابات جیت چکی تھی، سات دسمبر اس کی رسمی توثیق کا دن تھا۔ اس کا احساس تقریباً سبھی لوگوں کو ہو چکا تھا اور انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی چڑھتے سورج کی پرستش شروع کر دی تھی۔‘
ڈھاکہ کے ایک ڈپٹی سپرٹنڈنٹ پولیس نے صدیق سالک کو کہا کہ ’میں نے 22 مئی کو پوستوگولہ میں مجیب کے حامی مزدوروں پر لاٹھی چارج کروایا تھا۔ مزدوروں نے ضرور میرا نام شیخ صاحب کو بتا دیا ہو گا اور ان کو یہ واقعہ اب بھی یاد ہوگا، وہ مجھے نہیں بخشیں گے۔‘
’فوجی حلقوں سے ملٹری انٹیلی جنس کے افسر نے کہا کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے پر اگر شیخ صاحب نے اگرتلا سازش کیس کے کاغذات طلب کیے تو ان کو کئی مقامات پر فدوی کا نام نظر آئے گا اور وہ اتنے باظرف اور کشادہ دل انسان نہیں کہ کسی کو معاف کر دیں یا ان باتوں کو نظرانداز کر دیں۔‘

یحییٰ خان کے عزائم

جنرل یحییٰ خان کے عزائم کا ذکر اس زمانے میں ان کے اے ڈی سی رہنے والے ارشد سمیع خان نے اپنی کتاب ‘Three Presidents and an aide’ میں ان الفاظ میں کیا ’سنہ 1970 کے انتخابات سے پہلے میجر جنرل غلام عمر کی سربراہی میں نیشنل سکیورٹی سیل بنا جس نے صدر یحییٰ خان کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر تجزیہ کر کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ پیش کرنا تھا۔ اس سیل نے کام مکمل کر کے صدر کو جو رپورٹ پیش کی اس میں کہا گیا کہ 33 چھوٹی بڑی پارٹیوں میں ووٹ اس طرح تقسیم ہوں گے کہ کوئی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ سیل نے مسلم لیگ (قیوم) کو خفیہ طور پر پیسے دینے کی سفارش کی تاکہ وہ دوسری جماعتوں سے آگے بڑھ جائے اور یحییٰ خان کی سرپرستی میں مخلوط حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو۔ اس نیک مقصد کے لیے مغربی پاکستان سے خان عبدالقیوم خان اور مشرقی پاکستان سے صبور خان اور مولانا بھاشانی کو پیسے دینے کا فیصلہ ہوا۔‘

جنرل یحییٰ خان نے ایک نئے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت پانچ اکتوبر 1970 کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ (فوٹو: فیس بک)

الیکشن والے دن یحییٰ خان ایوان صدر سے ووٹ ڈالنے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو اپنے ڈرائیور اعجاز اور اے ڈی سی ارشد سمیع خان سے کہا کہ ’سمیع، اعجاز یاد رکھنا ہم نے سائیکل کو ووٹ دینا ہے، اس پر مہر لگانی ہے۔ ہم نے اس کی جیت کو یقنی بنانا ہے، اسے جیتنا چاہیے، اسے جیتنا چاہیے!‘

بھٹو کا کردار 

ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان میں اپنی جیت پر شاداں تھے۔ صدیق سالک کی کتاب کے مطابق ’انہوں نے 20 دسمبر کو لاہور میں کہا کہ میری جماعت کے تعاون کے بغیر نہ تو کوئی دستور بنایا جا سکتا ہے اور نہ مرکز میں کوئی حکومت چلائی جا سکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ طاقت کے سرچشمے ہیں جن میں ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔‘
عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری تاج الدین نے اس کے جواب میں کہا کہ ’عوامی لیگ ملک کا دستور بنانے اور مرکز میں حکومت چلانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم کسی دوسری پارٹی کے تعاون سے۔۔۔اور اس کے بغیر بھی--- یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ اب طاقت کا سرچشمہ ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتے۔‘
اب بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن واضح طور پر آمنے سامنے آ چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسا وفاقی نظام چاہتے تھے جس میں قابل عمل علاقائی خود مختاری ہو اور اس پر وفاق کی تمام اکائیوں کی رضامندی بھی ہو۔ دوسری جانب شیخ مجیب الرحمن کا اصرار تھا کہ ان کی جماعت وفاق اور بنگلہ دیش میں اکیلی حکومت بنا سکتی ہے تاہم ساتھ میں وہ اپنے چھ نکات پر بھی بضد تھے۔ 
یحییٰ حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھی ہوئی تھی اور ابھی بھی ہاری بازی کو اپنے حق میں پلٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

پنجاب اور سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کا زور تھا تو مشرق پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا طوطی بولتا تھا۔ (فوٹو: ڈیلی سٹار)

کتاب ’مشرق پاکستان کی علیحدگی‘ کے مطابق ’یحییٰ خان نے 28 جون 1971 کو قوم سے خطاب میں فرمایا کہ منتخب ارکان میں سے شرپسندوں اور وطن دشمنوں کی چھانٹی ہو گی اور خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو گا۔ یہ سارا بندوبست مشرقی پاکستان کے لیے تھا کیونکہ ’شرپسند‘ سارے ادھر ہی تھے۔‘
ان ’تاریخی ضمنی انتخابات‘ کے لیے باقاعدہ شیڈول کا اعلان ہو گیا۔ قومی اسمبلی کی 78 نشستوں کے لیے ضمنی الیکشن ہونا طے پایا، جس سے عوامی لیگ کے اراکین کی تعداد 160 سے کم ہو کر 82 رہ گئی۔ اسی طرح دو مرحلوں میں مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن ہونا تھا۔ عوامی لیگ کے پاس 300 کے ایوان میں 288 نشتیں تھیں، ان میں سے 192 نااہلوں کی نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونا طے پایا۔ 
دائیں بازو کی جماعتوں نے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور سیاسی منظر نامہ یوں بن رہا تھا کہ فوجی جنتا کی عنایت سے یہ جماعتیں جنہیں آگے چل کر ایک اتحاد یونائٹیڈ کولیشن پارٹی میں ڈھلنا تھا، اس کی نشستیں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی سے بڑھ رہی تھیں، یہ چیز ذوالفقار علی بھٹو کے لیے تشویش کا سبب تھی اس لیے ان کے لہجے میں تلخی آتی جا رہی تھی، جسے محسوس کر کے ضمنی انتخابات کے منتظم اعلیٰ میجر جنرل راؤ فرمان علی سے کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے لیے 24 نشستوں کا انتظام کیا جائے تاکہ قومی اسمبلی میں وہ اکثریت حاصل کر سکے لیکن یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ ایک تو پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں تھے، دوسرے ڈھاکہ میں الیکشن کے منتظمین کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ نہیں تھا اور تیسرے دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی کو کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا دینے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ اس پر یحییٰ خان نے ایک دفعہ پھر راؤ فرمان علی سے پیپلز پارٹی کے لیے کچھ کرنے کو کہا تو اسے چند نشستیں دینے کا فیصلہ ہوا اور نور الامین کی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی کے پانچ امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرایا گیا۔ 

حسن ظہیر کے مطابق ’عوامی لیگ نے شہری اور دیہاتی مڈل کلاس طبقے کو مغربی پاکستان کی بالادستی سے آزادی کے نام پر متحرک کیا ہوا تھا۔‘ (فوٹو: وائٹ سٹار)

سب کو نظر آ رہا تھا کہ ان سب ہتھکنڈوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ملک اب ٹوٹنے کی ڈگر پر چل پڑا ہے لیکن ان حالات میں یحییٰ خان اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 
پاکستان کی سیاسی تاریخ کو قریب سے دیکھنے والے سینیئر صحافی حسین نقی نے سنہ 70 کے انتخابات اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شیخ مجیب الرحمن نے انتخابی مہم کے دوران لاہور میں تقریر کرتے ہوئے چار باتیں کہی تھیں: 
1: الیکشن ہو گا 
2: آئین عوامی لیگ ہی بنائے گی 
3: زرعی اصلاحات ہوں گی 
4: جب تک 56 فیصد گزیٹڈ سول و فوجی افسران بنگالی نہیں ہو جائیں گے، یہاں (مغربی پاکستان) سے کوئی بھرتی نہیں ہو گی۔ 
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں ان سے ملنے گیا اور کہا کہ شیخ مجیب نے آپ کا کام کر دیا ہے۔ انہوں نے پوچھا وہ کیسے میں نے کہا کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہ ہو گا نہیں اور آپ کی زمینیں اور ان (فوجی و سول افسران) کی نوکریاں بچ جائیں گی لیکن ملک نہیں بچے گا اور پھر ہوا بھی یہی۔‘ 

شیئر: